لامذہب کون؟

امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہیں رکھتا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم،صفحہ 4، رقم 6)

اسی بغض کا نتیجہ ہے کہ بدعتی حضرات اہل حدیث کے الٹے سیدھے اور ناپسندیدہ نام رکھتے ہیں اور پھر ان برے ناموں کو اس قدر رواج دیتے ہیں کہ معاشرے میں وہ نام گالی بن کر رہ جاتے ہیں۔ اس ؂مذموم عمل سے عام اور سادہ لوح لوگوں کو اہل حق یعنی اہل حدیث سے دور رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔کفار ومشرکین نے بھی اسی حربے اور ہتھکنڈے کو اسلام کی یلغار روکنے کے لئے اختیار کیاتھا کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے ناپسندیدہ نا م رکھے تاکہ لوگوں کو نبی ﷺ کے پاس جانے اور ان کی بات سننے سے روکا جاسکے۔

کفار، مشرکین اور بدعتیوں کی اسی عادت بد کوجو انہوں نے اہل حدیث اور نبی ﷺ کے خلاف بطور ہتھیاراورحربہ اختیار کی، کا تذکرہ اوراس پررد کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں: اہل بدعت کی شناخت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کی غیبت کرتا ہو اور زندیقوں کی شناخت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو جھوٹا کہتے ہوں۔اور قدریہ کی علامت یہ ہے وہ اہل حدیث کو مجبرہ کہتے ہوں۔ اور نشان جہمیہ کا یہ ہے کہ وہ اہل سنت کو مشبہہ بتلاتے ہوں۔ اور علامت رافضیوں کی یہ ہے کہ انہوں نے اہل حدیث کا ناصبیہ نام رکھا ہے اور یہ لوگ یہ حرکتیں بسبب تعصب اور دشمنی اور غیظ وغضب کے جو ان کو اہل سنت سے ہے کرتے ہیں۔اور اہل سنت کا کوئی نام بجز ایک نام اہل حدیث کے نہیں ہے اور اہل بدعت نے جو اہل سنت کا لقب رکھا ہے وہ ان کے نام سے ملتا ہی نہیں ہے جیسے کافروں نے پیغمبر ﷺ کا نام ساحر و شاعر و دیوانہ و آسیب رسیدہ کاہن رکھا تھا اور یہ سب نام حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات سے بالکل بے تعلق تھے اور کسی طرح سے صادق نہ ہوسکتے تھے۔(غنیۃ الطالبین ،طبع مکتبہ تعمیرانسانیت، لاہورصفحہ143)

عرب کے کفار کی تقلید کرتے ہوئے حنفی بدعتیوں نے اہل حدیث کے جو مختلف نام رکھے ہیں ان میں سب سے برا اور قبیح نام لامذہب ہے۔

1۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نے اہل حدیث کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے: اس کا مطلب یہ ہو اکہ آپ اہل حدیث ہیں؟.....لیکن علماء نے آپ کوبد مذہب(برامذہب ) لامذہب (بے مذہب)غیر مقلد(خواہش پرست)لکھا ہے۔(شادی کی پہلی دس راتیں،صفحہ 7)

2۔ امین اوکاڑوی دیوبندی نے کسی مجہول کتاب الارشاد سے بطور رضامندی نقل کیا ہے: اپنے آپ کو تو وہ اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔(تجلیات صفدر،جلد سوم،صفحہ 495)

خود امین اوکاڑوی بھی اہل حدیث کو لامذہب کے نام سے پکارتے ہوئے رقم طرا ز ہے: لامذہبوں کا دعویٰ ہے کہ اس رفع یدین کی حدیث متواتر ہے۔(تجلیات صفدر، جلد دوم،صفحہ 387) 

 3۔ ہندوستان کے ایک دیوبندی عالم ابوبکرغازی پوری نے اہل حدیث کے خلاف عربی میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہی ’’وقفۃ مع اللا مذہبۃ فی شبہ القارۃ الہندیۃ ‘‘ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں اردو ترجمے کے ساتھ ایک دوسری کتاب کے ساتھ کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ کے نام سے مطبوع ہے۔
اہل حق کو لامذہب کے نام سے موسوم کرنے میں آل تقلید منفرد نہیں بلکہ عرب کے کفار اور مشرکین بھی شرک و کفر سے تائیب ہوکر مسلمان ہو جانے والوں کو صابی یعنی لامذہب کہتے تھے۔


علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پرتھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی پر مشرکین اصحاب رسول ﷺ کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کردئیے۔(تفسیر ابن کثیر،جلد اول،صفحہ 121)

تنبیہ:
 
 ۱۔ تفسیر ابن کثیر میں صابی کے معنی ان الفاظ میں درج ہیں: صابی کے معنی ایک تو بے دین اور لامذہب کے کئے گئے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر،جلد اول،صفحہ 121)

۲۔ صابی کے یہی معنی تفسیر احسن البیان میں بھی موجودہیں: یہ کسی بھی دین کے پیرو نہ رہے۔اسی لئے لامذہب لوگوں کو صابی کہاجانے لگا۔(تفسیر احسن البیان، صفحہ 33)
 
 اس تفصیل سے یہ تلخ حقیقت آشکار ہوئی کہ حق کے باغی چاہے زمانہ قدیم کے مشرکین وکفار ہوں یا موجود زمانے کے بدعتی اور گمراہ ان سب کا طریقہ واردات یکساں ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آل تقلید اس مسئلہ میں عرب کے مشرکین اور کفار کے قدم بہ قدم ہیں۔ تقلیدیوں کو آخر کس بات نے کفار کے نقش پاء کی تقلید پر مجبور کیا۔اس کی معلوم وجہ کفار کے اس طریقہ کا آزمودہ ہونا ہے جس کے ذریعے ہر دور کے باطل پرستوں نے اہل حق کے مختلف نام رکھکر انہیں معاشرے میں خوب رواج دیا تاکہ حق کی آواز کم سے کم سنی جاسکے اور اس کے پھیلاؤ کی راہیں مسدود کی جاسکیں ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ باطل پرستوں کو اس نامسعود کوشش میں خاطر خواہ کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اسی لئے شیطان کے پجاریوں نے کبھی بھی اس حربہ اور کامیاب اور آزمودہ حکمت عملی کو نہیں چھوڑا بلکہ زمانہ قدیم ہی سے اسے تسلسل کے ساتھ برقراراور جاری رکھے ہوئے ہیں۔احناف نے بھی اسی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور اس کامیاب حکمت عملی سے استفادہ کرتے ہوئے اہل حدیثوں کولامذہب کے نام سے مشہور کیا۔کفار کی طرح اہل حدیث کا لامذہب نام رکھنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ ان کے نزدیک صرف چار تقلیدی مذاہب ہی جائز ہیں۔ان چارتقلیدی مذاہب کے علاوہ کسی مذہب کو یہ مذہب مانتے ہی نہیں اسی لئے اپنے نزدیک پانچویں مذہب اہل حدیث کو لامذہب قرار دیتے ہیں۔

1۔ تفسیرصاوی سورہ کہف واذکر ربک اذ انسیت کی تفسیر میں درج ہے: یعنی چار مذہبوں کے سوا کسی کی تقلید جائز نہیں اگرچہ وہ صحابہ کے قول اور صحیح حدیث اور آیت کے موافق ہی ہو۔ جو ان چار مذہبوں سے خارج ہے وہ گمراہ اور گمراہ گرہے۔کیوں کہ حدیث و قرآن کے محض ظاہری معنی لینا کفر کی جڑ ہے۔(بحوالہ جاء الحق، صفحہ 33)
 
معلوم ہواکہ حنفیوں کے نزدیک چارتقلیدی مذاہب کے علاوہ جو بھی ہے وہ لامذہب،گمراہ بلکہ گمراہ گر اور کافر ہے۔

2۔ طحاوی شرح در مختار میں ہے: وھذہ الطائفۃ الناجیۃ قد اجتمعت الیوم فی مذاہب اربعۃ الخ وتقدم فی مسئلہ ترجمہ: فرقہ ناجیہ صرف مذاہب اربعہ کا نام ہے۔(طحاوی شرح در مختار، 4/153)
 
اس حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ صحیح احادیث کے مطابق فرقہ ناجیہ ایک ہے چار نہیں دیکھئے کہ کس طرح انہوں نے مذہب اہل حدیث کو فرقہ ناجیہ سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ہے۔جبکہ اکابر امت کی اہل حدیث کے فرقہ ناجیہ ہونے پر لاتعداد تصریحات موجود ہیں۔ان کا مطلب یہ ہے کہ اہل حدیث مذہب پر عمل پیرا شخص نجات نہیں پائے گاکیونکہ یہ مذہب چار مذاہب میں شامل نہیں بلکہ انکے علاوہ پانچواں مذہب ہے۔گویا کہ اہل حدیث مذہب کوئی مذہب ہی نہیں یعنی لامذہب ہے ۔

3۔ مفتی محمد راشد اعظمیٰ دیوبندی صاحب کا فرمان ہے کہ چار تقلیدی مذاہب ہی حقہ ہیں اور ان کے علاوہ کسی بھی مذہب حقہ کا وجود ہی ختم ہوگیا ہے۔لکھتے ہیں: یہاں تک کہ ان چاروں حضرا ت کے مذاہب کے سوا اہل حق کا کوئی اور مذہب باقی نہ رہ گیا۔پھر اسی مفہوم کی عبارت شاہ ولی اللہ سے نقل کرتے ہیں: جب ان چاروں کے علاوہ دیگر مذاہب حقہ ناپید ہوگئے۔ (مسئلہ تقلید، صفحہ 12)
 
جب اپنے تئیں انہوں نے یہ فرض کر لیا کہ ان کے خودساختہ چار مذاہب کے علاوہ اب کسی بھی مذہب کو حق نہیں کہا جاسکتا کیونکہ کسی بھی مذہب حقہ کا وجود ہی سرے سے ختم ہوگیا تو پھرکیا وجہ نہیں کہ یہ لوگ اہل حدیث مذہب پر عمل پیرا لوگوں کا لامذہب نہ کہیں!

4۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی رقمطراز ہیں: اس پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں۔(تذکرۃ الرشید،صفحہ 131)
 
کہتے ہیں کہ چار مذاہب کے علاوہ پانچواں مذہب ایجاد کرنا جائز نہیں کیونکہ اس پر (نامعلوم) اجماع ہے۔یعنی ان کے ہاں چارخود ساختہ مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب خاص طور پر اہل حدیث مذہب کوئی حیثیت و حقیقت نہیں رکھتا۔

مذکورہ بالا تفصیلات سے اظہر من الشمس ہے کہ آل تقلید خود ساختہ چار تقلید ی مذاہب کے علاوہ پانچویں مذہب اہل حدیث کی کوئی اہمیت اور حیثیت تسلیم کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس مذہب کے ماننے والوں کو لامذہب سمجھتے ہیں۔لیکن انکا یہ خیال باطل ہے ۔اہل حدیث لامذہب نہیں بلکہ اہل سنت اور اہل حق ہیں اس بات کی گواہی ہم انہیں کے معتبر علماء کی زبانی پیش کررہے ہیں۔

1۔ مولانا مفتی رشید احمد صاحب دیوبندی فرماتے ہیں: تقریباً دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اورجزوی مسائل کے حل میں اختلاف انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر قائم ہوگئے۔یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث۔اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔(احسن الفتاویٰ، جلد 1، صفحہ 316، مودودی اور تخریب اسلام، صفحہ 20)

2۔ مفتی محمد نعیم دیوبندی امدادالاحکام سے ایک فتویٰ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جماعت اہل حدیث کافر نہیں ہیں، ان میں جو لوگ مذاہب اربعہ کی تقلید کو شرک ، اور مقلدین کو مشرک ، یا ائمہ اربعہ کو برا کہتے ہیں وہ فاسق ہیں، اور جو ایسے نہیں ہیں صرف تارک تقلید ہیں ، اور محدیثین کے مذاہب پر ظاہر حدیث کے اتباع کو افضل سمجھتے ہیں،اور اس میں اتباع ہویٰ سے کام نہیں لیتے وہ فاسق بھی نہیں ہیں بلکہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔(ادیان باطلہ اور صراط مستقیم، صفحہ 288)

3۔ دیوبندیوں کے مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں: ہاں! اہل حدیث مسلمان ہیں، اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔(کفایت المفتی :۱ /۳۳۳ بحوالہ ادیان باطلہ اور صراط مستقیم، صفحہ 288)
 
آل تقلید کے تین معتبر علماء کی گواہی سے یہ حقیقت منصہ ظہور پر آئی کہ اہل حدیث لامذہب نہیں بلکہ اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں اور ایک ایسا مذہب رکھتے ہیں جس کا شماربجاطور پر اہل حق میں ہوتا ہے۔والحمداللہ

صوفی محمد اقبال دیوبندی امداد الفتاویٰ سے ایک سوال کہ اہل حدیث کو وہابی کہنا کیسا ہے؟ پھر اس کا جواب نقل کرتے ہیں: اس لقب کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص مسلک میں ابن عبدالوہاب کو اپنا مقتدا یا موافق مانتا ہو پس اگر یہ اتباع یا توافق مطابق واقع کے ہوتو یہ لقب درست ہے ورنہ کذب ولاتنابزو ابالالقاب کی مخالفت ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 170)
 
یہ بات مخالفین کے نزدیک بھی مسلمہ ہے کہ اہل حدیث محمد بن عبدالوہاب سمیت کسی کی بھی تقلید نہیں کرتے اور اسی سبب اہل حدیثوں کو مخالفین کی جانب سے غیرمقلد کے لقب سے ملقب کیاجاتا ہے۔پس نہ تو وہابی کا لقب اہل حدیث کے لئے درست ہے اور نہ ہی لامذہب کا دل آزار نام اپنے اندر کوئی حقیقت رکھتا ہے بلکہ متذکرہ بالادیوبندی فتویٰ کی روشنی میں اہل حدیث کو لامذہب کہنا کذب ولاتنابزو ابالالقاب کی مخالفت ہے کیونکہ خود حنفیوں و دیوبندیوں نے اہل سنت والجماعت کے مبارک گروہ میں اہل حدیث کا شمار کیا ہے۔ثم الحمداللہ

اہل حدیث کی حقانیت اور سچائی ثابت کرنے کے بعد اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اصل میں جو لوگ اہل حدیث کے خلاف لامذہب کا شور مچا رہے ہیں اپنی فقہ اور اپنے مذہب کے مطابق درحقیقت وہی لا مذہب ہیں۔

1۔ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ردالمحتار للشامی میں درج ہے: ان من التزم مذھبا معینا کابی حنیفۃ والشافعی فقیل یلزمہ و قیل لاوھو الاصح وقد شاع ان العامی لامذہب لہ۔ (ردالمحتار للشامی، ۱/۳۳) کسی نے اپنے اوپر ایک مذہب لازم کر لیا جیسے حنفی شافعی تو بعض احناف کہتے ہیں: اس پر اس مذہب سے چمٹے رہنا لازمی ہے اور بعض کہتے ہیں لازمی نہیں ہے۔شامی کہتے ہیں کہ دوسری بات زیادہ صحیح ہے کیونکہ یہ مشہور ہے کہ عامی لامذہب ہو ا کرتا ہے۔
 
چونکہ موجودہ تمام حنفی بشمول دیوبندی اور بریلوی خود کو بزم خویش عامی سمجھتے ہیں اور چونکہ ان کے مذہب میں عامی لامذہب ہوتا ہے اور اسکے لئے تقلید کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔اس لئے ثابت ہوا کہ موجودہ دور کا ہر مقلد لامذہب ہے۔

2۔ اسی کتاب کے باب التعزیر میں شامی تفصیل سے لکھتے ہیں: وایضاً قالوا العامی لامذہب لہ بل مذھبہ مذہب مفتیہ و عللہ فی شرح التحریر بان المذھب انما یکون لمن لہ نوع نظر و استدلال و بصر بالمذاھب علی حسبہ اولمن قراٗ کتابا فی فروع ذلک المذہب وعرف فتاوی امامہ و اقوالہ واما غیرہ ممن قال: انا حنفی او شافعی لم یصر کذلک بمجرد القول کقولہ وانا فقیہ او نحوی۔
عامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا جیسے حنفی، شافعی نہیں بن سکتا بلکہ وہ تو زندہ انسان کے فتوے پر چل رہا ہوتا ہے، مقلد تو وہ ہوسکتا ہے جو کسی امام کی کتاب پڑھ لے یا اقوال یاد کرلے اور عامی میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی ، تو صرف اپنے آپ کو حنفی شافعی کہہ دینے سے حنفی شافعی نہیں بن سکتا۔
جس طرح اگر کوئی عامی اپنے آپ کو نحوی یا فقیہ کہہ دے تو یہ صرف زبانی جمع خرچ ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اس سے کوئی نحوی او ر فقیہ نہیں بن سکتا۔(ردالمحتار للشامی،باب التعزیر ۳/۱۹۰)

 
آل تقلید کے قابل فخر فقیہ شامی کی اس گواہی سے جو مقلدوں کے حق میں انتہائی ذلت آمیز ہے ،ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حنفیوں کا حنفی مذہب سے انتساب کا دعویٰ سراسر جھوٹا ہے۔مقلد اپنی جہالت کے سبب ہر گز اس لائق نہیں کہ خود کو کسی مذہب کی طرف منسوب بھی کرسکے وہ تو کوئی مذہب ہی نہیں رکھتا یعنی لامذہب ہوتاہے۔

3۔ شاہ ولی اللہ دہلوی لکھتے ہیں: ابوالفتح ہروی جو امام ابوحنیفہ کے تلامذہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ ہمارے اکثر ائمہ کا اصول میں یہ مذہب ہے کہ عامی کا کوئی مذہب نہیں۔(عقدالجید،صفحہ88، بحوالہ فرمودات شاہ ولی اللہ اور تقلید شخصی،صفحہ 44)

4۔ اشرف علی تھانوی صاحب بھی عامی کے لامذہب ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اسی بناء پر بعض علماء کا قول ہے العامی لا مذہب لہ۔ (ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 96)
 
مذکورہ بالا ناقابل تردید حقائق کے باوجود بھی لامذہب مقلدین کا اہل حق اہل حدیث کو لامذہبیت کا طعنہ دینا محض دھوکہ اور حقائق پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے ۔ حنفی مذہب کے فقہاء اور علماء کا عامی (مقلد) کے لامذہب ہونے پر اتفاق ہے۔ جو خود کوئی مذہب نہیں رکھتا وہ آخر کس منہ سے اہل حدیث کو لامذہب ہونے کا طعنہ دیتا ہے؟ مقلدوں میں ذرہ برابربھی دیانت ،امانت،سچائی ،غیرت ،شرم کچھ باقی ہے ؟ یا بے حیائی کی نظر ہوکر عنقاہوگئی؟ آل تقلید کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ فراڈ اور دھوکہ سے اسی دنیا میں عارضی طور پر کام چلایا جاسکتا ہے ۔ آخرت میں جو عدالت لگنے والی ہے وہاں آل تقلید کے یہ شیطانی ہتھکنڈے ان کے کسی کام نہیں آئیں گے کم ازکم اللہ کی عدالت کی باز پرس سے ہی ڈر جاؤ!
















دیوبندی علماء ادب اور اخلاق کی انتہاؤں پر

یقیناًوہ تحریریں کبھی نہ کبھی آپ کی نظروں سے ضرور گزری ہونگی جن میں علمائے دیوبند ادب پر زور دار لیکچردیتے ہوئے پائے جاتے ہیں اورحقائق کے برعکس اہل حدیث کو بزرگان دین کا بے ادب اور ائمہ کا گستاخ بتاتے ہیں لیکن ادب شناسی اور اعلیٰ اخلاق کا تاج اپنے سر سجانا ہر گز نہیں بھولتے۔


اس وقت اہل حدیث کا دفاع یا ان کی بے گناہی ثابت کرنا ہمارا مقصد نہیں بلکہ دو رخ اور دو غلی پالیسی رکھنے والے دیوبندی علماء کا اصل اور حقیقی چہرہ آپ کو دکھانا مقصود ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ اتنے ہی ادب شناس ہیں جتنا اپنے متعلق اس بات کا ڈھول پیٹتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں؟

یہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی ہیں موصوف لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ چلا رہے ہیں اور امین اوکاڑوی کے تلمیذ رشید ہیں۔چونکہ استاد کے شاگرد کے کردار پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذا پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی (جو کہ باقاعدہ عالم نہیں تھا)کے ’’اعلیٰ اور بے مثال اخلاق‘‘ سے مولانا عبدالغنی اور دیگر شاگردوں نے وافر حصہ پایا ہے جس کا مظاہرہ یہ اکثر اوقات اہل حدیث کے خلاف کرتے نظر آتے ہیں۔استاد یعنی امین اوکاڑوی کی تحریروں میں بے حیائی، بے شرمی اور بد تہذیبی کے نادر اور نایاب نمونے جابجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں جو ان کی اوباش طبیعت اور گندی ذہنیت کے آئینہ دار ہیں۔یہ نمونے ایسے ہیں کہ بیان کرنا تو دور کی بات رہی کوئی شریف آدمی انہیں اپنی نوک زبان پرلاتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے۔

استاد کی طرح اس کے شاگرد بھی بے حیائی اور بدزبانی میں اپنے استاد سے کسی بھی طرح کم نہیں بلکہ استاد کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے بدزبانی، عریانی اور بازاری انداز میں استاد سے آگے نہیں تو کم ازکم اس کے برابر ضرور پہنچ گئے ہیں۔ عبدالغنی طارق کی شیریں اور ’’اخلاقی آداب ‘‘سے پوری طرح واقف زبان (جوکہ انہوں نے اپنے اسلاف سے ورثہ میں پائی ہے) کے جوہر کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد آپ کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں سہولت و آسانی ہوگی کہ اصل بے ادب اور گستاخ کون ہے۔

اہل الحدیث کی تضحیک کی آڑ میں نماز جیسے اسلامی شعار کا شرمناک طریقے سے مذاق اڑاتے ہوئے مولانا عبدالغنی طارق لدھیانوی (جنھیں مولانا کہنا بھی ہمارے نزدیک اہل علم کی شان میں کسی طور گستاخی سے کم نہیں) رقم طراز ہیں:۔
نماز جس کو عربی میں صلواۃکہتے ہیں۔ لغت میں اس کا معنی تحریک صلوین ہے.......جس کا مطلب سرین یعنی ہپس......جس میں قبل اور دبر کا سوراخ ہوتا ہے، اس کو حرکت دینا...... اس لغوی معنی کے لحاظ سے آج کل کی تمام رقاصائیں یعنی ڈانسر خواہ ان کا تعلق ہالی وڈ سے ہو، یا بالی وڈ سے ہو، یا لالی وڈ سے، وہ سب سے بڑی نمازی کہلائیں گی، اگر نرگس نے یہ چیلنج کر دیا کہ سب سے زیادہ نمازیں میں پڑھتی ہوں تو اس کے چیلنج کو توڑنا اہل حدیث کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے آپ کے علماء احسان الٰہی ظہیر، عبداللہ روپڑی، اثری، شمشاد سلفی، بدیع الدین پیر جھنڈا، نذیر حسین دھلوی، غزنوی وغیرہ کے گھر کی خواتین نے ساری زندگی کبھی نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوگ جب مسجد سے آکر پوچھتے کہ نماز؟ ان کی عورتیں بیٹھی بیٹھی سرین (ہپس) کو ہلا کر کہہ دیتیں کہ پڑھ لی....(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 48)۔

یاد رہے کہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کی جس کتاب سے ہم نے یہ اقتباس بطور نمونہ نقل کیا ہے اس کتاب میں اس سے بھی بڑھکر کچھ اور نمونے ایسے موجود ہیں جنھیں شرم کے مارے قلم تحریر کرنے اور زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔غلاظتیں اگلتی ہوئی عبدالغنی طارق لدھیانوی کی یہ زبان اوکاڑوی کلچر کا تحفہ ہے۔اپنے استاد کی طرح موصوف بھی اہل حدیث دشمنی اور عداوت میں ہوش و خرد سے ایسے بیگانہ ہو ئے کا شرم وحیا کا چولہ بھی اتار پھینکااور خود بھی ننگے ہوئے اور اپنے باطل مذہب کو بھی بے لباس کر دیا۔

شاید دیوبندیوں کو مذکورہ بالا اقتباس اخلاق سے گرا ہوا نہ لگے کیونکہ جس فقہ پر یہ لوگ عمل پیرا ہیں اس میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ایسے نمونے موجود ہیں جس سے بے حیائی بھی کچھ دیر کے لئے شرما جائے۔

مسلک دیوبند کا یہ سرتاج عالم جس سوقیانہ اور بازاری انداز میں دوسروں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کا ذکر کرتا ہے اس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اپنے مدرسے میں زیر تعلیم اس کی اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر اس کی کیسی نظر ہوگی اور اپنے دل میں ان سے متعلق کیسے کیسے گندے خیالات لاتا ہوگا۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ دیوبندی علماء کے اخلاق کا ایسا نمونہ بوجہ مجبوری پیش کیا گیاو گرنہ ان لوگوں کی ادب شناسی ، احترام اور اخلاق کا پردہ چاک کرکے ان کے اصل مکروہ چہرے کو لوگوں کو دکھاناپیش نظر نہ ہوتا تو ہم اس اقتباس کو نقل کرنے کی ہرگز جراء ت نہ کرتے جس نے اخلاق اور حیاکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔





بریلویوں کے غوث الاعظم، بریلوی عدالت میں

اہل باطل اپنے خود ساختہ نظریات کے دفاع میں اور مخالفین کو چپ کروانے کے لئے گاہے بگاہے ایسے اصول وضع کرتے ہیں کہ ایک اصول دوسرے اصول سے متصادم ہوکر انہیں جھوٹا ثابت کردیتا ہے تو کہیں ایک اصول جو انہوں نے کسی شخصیت کی شان میں گھڑا ہوتا ہے انہیں کے کسی دوسرے اصول کی روشنی میں گستاخی اور توہین قرار پاتا ہے۔ 

باطل اور جھوٹے نظریات کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں سلجھانے کی جو بھی تدبیر کی جائے یہ گیسوئے جاناں کی طرح مزیدالجھتے ہیں اور بالآخر باطل پرستوں کا پول کھولنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس طرح کے معاملات میں باطل پرستوں کی خیریت اسی میں ہوتی ہے کہ وہ خاموشی اختیار کریں اور اپنی جان بچائیں لیکن بھلا ہو ان حق پرستوں کا جو اپنے ناقابل تردید دلائل سے ان کی نیندیں حرام کئے رکھتے ہیں۔ پھر مجبوراً یہ بیچارے باطل پرست اپنے دفاع میں منہ کھولتے اور پکڑے جاتے ہیں۔

ایسی ہی تین عدد بریلوی مثالیں پیش خدمت ہیں جن میں بریلوی اپنے باطل نظریات کے دفاع میں اپنے خود ساختہ غوث الاعظم کی شدید توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایسے انصاف پسند بریلوی حضرات کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے جو بریلوی علماء کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے اہل حدیث کو گستاخ جانتے ہیں،وہ بتائیں کیا بریلوی علماء گستاخ نہیں ہیں؟

پہلی مثال:۔
علامہ محمد فیض احمد اویسی جو بریلویوں کے شیخ الحدیث ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی کو فخریہ مقلد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: الحمداللہ وہ مقلد تھے غیر مقلد نہیں تھے۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۷)۔

لیکن اس اعتراف کے ساتھ احمد اویسی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ مجتہد فی المذہب تھے۔چناچہ لکھتے ہیں:
غوث اعظم رضی اللہ عنہ مجتہد فی المذہب تھے آپ اجتہاد کرتے تھے ان کا اجتہاد کبھی تو مسلک شافعی پر ہوتا اور کبھی مسلک حنبلی پر۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۸)۔

کسی شخص کا بیک وقت مقلد اور مجتہد ہونا شاید تقلیدی تاریخ کی پہلی مثال ہے ورنہ تو ہم اب تک مقلدین کی زبانی یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ جومجتہد ہو وہ مقلد نہیں ہوتا اور جو مقلد ہو وہ مجتہد نہیں ہوتا۔

شیخ عبدالقادر جیلانی مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے بھی مقلد کیوں تھے اس کا جواب دیتے ہوئے احمد اویسی بریلوی رقم طراز ہیں: ورنہ آپ چاہتے تو اپنے اجتہاد سے آیات و احادیث سے ہزاروں مسائل کا استنباط فرماتے لیکن نہیں، امت کے حال پر ترس کھا کر شیرازہ بکھیرنے کے بجائے تقلید کے باب کو اور مضبوط تر بنادیا۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۸)۔

گویا بریلویوں کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کا مقلد ہونا بھی امت محمدیہ پر احسان عظیم ہے وگرنہ موصوف مقلد نہ بنتے تو امت کا شیراز ہ بکھر جاتا!!۔

بریلویوں کی اپنے نام نہاد غوث اعظم کی شان میں گھڑی ہوئی یہ کہانی کیسے ان کے دوسرے اصول سے انہیں گستاخ بنارہی ہے ملاحظہ فرمائیں:۔

بریلوی مفتی احمد یار نعیمی’ کس پر تقلید کرنا واجب ہے اور کس پر نہیں‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: 
غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے۔ مجتہد کے لئے تقلید منع ہے۔(جاء الحق، ص26)۔

معلوم ہوا جو مجتہد نہ ہو اس پر تقلید واجب ہے لیکن جو مجتہد ہو اور پھر بھی تقلید کرے اس کے بارے میں احمد یار نعیمی لکھتے ہیں: ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔(جاء الحق، ص27) ۔

اسی طرح بریلوی مذہب کے بانی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں: یہ حکم اس مذہب جمہور پر ہے کہ ایک مجتہد کے لئے دوسرے مجتہد کی تقلید جائز نہیں۔(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام، ص۱۲۱)۔

مزید لکھتے ہیں کہ مجتہد اگر مجتہد کی تقلید کرے تو اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔دیکھئے: 

معلوم ہوچکا کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اہل نظر و اجتہاد کے لئے یہ جائز نہیں کہ دوسرے مجتہد کی تقلید کرے اور وہ اگر دوسرے کا قول اس کی دلیل تفصیلی سے آگاہی کے بغیر لے لیتا ہے تو جمہور کے نزدیک یہ تقلید حقیقی میں شامل ہے جو بالاجماع حرام ہے۔(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام، ص۱۲۳)۔

اس بریلوی اصول سے ثابت ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی تمام زندگی ایک حرام اور ناجائزکام کرتے ہوئے گزاری۔ جو زندگی بھر حرام کا مرتکب رہا ہو ایسا شخص ولی اللہ ہونا تو کجا کیا ولی اللہ کہلائے جانے کے بھی قابل ہے؟؟؟
بریلویوں کو چاہیے کہ فوراًاپنے نام نہاد غوث اعظم کی مریدی سے کنارہ کش ہو جائیں کیونکہ خو د ان کے اصول پران کے خودساختہ غوث اعظم حرام اور ناجائز کام میں زندگی بسر کرنے والے فاسق اور فاجرشخص قرار پاتے ہیں۔

دوسری مثال:۔
محمد فیض احمد اویسی بریلوی کے نزدیک تصوف کے سلسلوں میں سے دو سلسلوں(سہروردیہ، نقشبندیہ) کے بانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے فیض یافتہ ہیں بلکہ یہ دونوں سلسلے شیخ عبدالقادر جیلانی ہی کے مرہون منت ہیں اور تصوف کا قادری سلسلہ تو خاص عبدالقادر جیلانی ہی سے منسوب ہے۔ یعنی تصوف کے تمام سلسوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا بڑا حصہ ہے جیسا کہ فیض احمد اویسی نے مجدد الف ثانی کا قول نقل کیا ہے: بھئی کسی کو روحانی فیض ملا ہے وہ غوث اعظم سے ملا ہے اور آپ ہی مرکز ولایت اور قطبیت ہیں۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۱)۔

دوسری طرف بریلویوں کے مفتی احمد یار نعیمی تصوف کے تمام سلسلوں کو واضح طور پر بدعت قرار دیتے ہیں۔دیکھئے لکھتے ہیں: شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی .....قادری ، چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔ان میں سے بعض کے تو نام تک بھی عربی نہیں۔جیسے چشتی یا نقشبندی، کوئی صحابی ، تابعی ، حنفی ، قادری نہ ہوئے۔(جاء الحق، ص229)۔

کیا بریلویوں کے اپنے ہی اصول سے ان کے غوث اعظم بدعتی قرار نہیں پاتے؟؟؟!!!۔
کیا ایک بدعتی بھی ولی اللہ ہوسکتا ہے یا ایسے شخص کے لئے شیطان کا ولی ہونا زیادہ لائق مستحق ہے؟!۔

تیسری مثال:۔
بریلویوں کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے۔ محمد فیض احمد اویسی لکھتے ہیں: خلاصہ یہ کہ آپ نے امور باطنہ میں مصروفیت کیوجہ سے فقہی امور میں امام احمد بن حنبل کی تقلید اختیار فرمائی۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۱)۔

شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی مقلد کیوں تھے حنفی، مالکی یا شافعی کیوں نہیں تھے اور انہوں نے ایک افضل امام (حنفیوں کے نزدیک ابوحنیفہ سب سے افضل امام، امام اعظم ہیں)کو چھوڑ کر مفضول امام کی تقلید کیوں اختیار کی اسکا جواب دیتے ہوئے محمد فیض احمد اویسی بریلوی ایک گستاخانہ واقع نقل کرتے ہیں:۔

ایک دن آپ کے دل میں تقلید مذہب کا خیال پیدا ہوا تو اسی رات دیکھا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم بمع جمیع صحابہ کرام تشریف فرما ہیں اور امام احمد بن حنبل اپنی داڑھی پکڑ کر کھڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کررہے ہیں۔
یا رسول اللہ اپنے پیارے بیٹے محی الدین سید عبدالقادر کو فرمائیے کہ اس بڈھے کی (یعنی میری) حمایت کرے آپ نے تبسم فرماتے ہوئے کہااے عبدالقادر اس کی عرض قبول کر تو آپ نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے ان کی التماس قبول کر لی اور صبح کی نماز مصلے حنبلی پر پڑھی اور اس دن امام کے علاوہ دوسرا کوئی مقتدی نہ تھا کہ جماعت کرائی جاسکتی آپ کے تشریف لانے سے ہی خلقت کا اس قدر ہجوم ہوا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔راوی کہتا ہے کہ اگر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ اس دن مصلی حنبلی پر نماز نہ پڑھتے تو حنبلی مذہب صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔
(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۲)۔

اس کے سراسر برعکس بریلوی مفتی احمد یار نعیمی ، حنبلی ، شافعی ، مالکی اور حنفی سلسلوں کو بدعت کہتے ہیں: شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی، شافعی ، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادری ، چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں........کوئی صحابی ، تابعی ، حنفی ، قادری نہ ہوئے....جب ایمان اور کلمہ میں بدعات داخل ہیں۔تو بدعت سے چھٹکارا کیسا؟(جاء الحق، ص229)۔

اس بریلوی اصول سے شیخ عبدالقادر جیلانی جنھیں بریلوی اپنا غوث الاعظم سمجھتے ہیں بلا شک و شبہ بدعتی ثابت ہوتے ہیں۔
جب بریلوی خود ہی اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ تقلیدی سلسلے بالکل بدعت ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ شیخ عبدالقادر جیلانی کو بدعتی بن جانے کا حکم دیں؟!۔

مذکورہ بالا حوالے میں بریلویوں نے بیک وقت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بڈھا کہہ کر، نبی کریم ﷺ کو بدعت کا حکم دینے والا بتا کر اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو بدعتی بنا کر ان عظیم المرتبت شخصیتوں کی شدید ترین توہین کی ہے جس کا ان بدعتیوں کو اللہ کے دربار میں جواب دینا ہوگا۔ان شاء اللہ




























ملنگ کا بہتان عظیم
بجواب 
اہل حدیث کا قرآن اور حدیث 

ملنگ صاحب بدنام زمانہ دجال پرائمری ماسٹر امین اوکاڑوی کے روحانی شاگرد ہیں۔ امین اوکاڑوی نے حقیقی اہل حق یعنی اہل حدیث کے مقابلے کے لئے الزام تراشی، بہتان بازی، کذب بیانی، مغالطہ بازی کا جو شیطانی کلچر متعارف کروایا ملنگ صاحب اس اوکاڑوی کلچر پر مکمل طور پر عمل پیر اہیں یہی وجہ ہے کہ امین اوکاڑوی کی شیطانی صفات کافی حد تک انکے روحانی شاگرد ملنگ صاحب میں سرائیت کر گئی ہیں۔ آئیے آپ کو امین اوکاڑوی اینڈ کمپنی کی انہیں ابلیسی صفات کی ایک جھلک دکھاتے ہیں۔ 

حق فورم درحقیقت باطل فورم پر ملنگ نے ایک تھریڈ بنایا ہے جس میں انہوں نے کسی مجہول شخص سے بائی لکس کے پرائیوٹ روم میں ہونے والی گفتگو پیش کرکے اہل حدیث کو مطعون کرنے کی اپنی دیرینہ خواہش پوری کی ہے۔ دیکھئے : ۔




اس پوری گفتگو کو ملنگ کا اہل حدیث کی طرف منسوب کرنا کئی لحاظ سے مردود ہے۔

۔۱۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ یہ گفتگو ایک پرئیوٹ روم میں ہوئی ہے اہل حدیث کے کسی روم میں نہیں ہوئی۔ کیونکہ ملنگ صاحب کے اکابر امین اوکاڑوی دجال بھی اہل حدیث کے نام پر فرضی کہانیاں گھڑ کر مضامین لکھتے تھے اسلئے بہت ممکن ہے کہ ایک پرائیوٹ روم میں ملنگ ہی کی فرمائش پر کسی دیوبندی مقلد نے اپنے امام کو گالیاں دی ہوں۔ تاکہ ملنگ صاحب اس دھوکہ دہی کی بنیاد پر اہل حدیث کے خلاف مضمون تیار کرسکیں۔ جو کہ انہوں نے کیا۔

۔۲۔ بائی لکس وغیرہ پر اہل حدیث کے رومز پر اس طرح کی غلیظ باتوں کی ہر گز اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ اہل حدیث اختلاف میں اس قدر آگے نہیں بڑھتے کہ اس طرح کے گھٹیا الزامات پر اتر آئیں بلکہ اپنے اختلاف کو دلائل تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اس طرح کی اوچھی حرکتیں صرف اور صرف گندی فقہ کے حاملین ہی کرتے ہیں۔ اس لئے یہ حرکت بھی کسی گندے دیوبندی کی ہے۔

اگر ملنگ صاحب اپنے دعویٰ میں سچے ہیں تو انہیں چاہیے کہ پرائیوٹ روم میں کسی مجہول شخص سے لڑنے کے بجائے کسی اہل حدیث روم میں تشریف لائیں پھر اگر کوئی اہل حدیث اس طرح کی بات کرتا ہے( جو کہ محال ہے) پھر اس پر تھریڈ بنانے کا شوق پورا کریں۔ فی الحال تو آپ کی اس ڈرامے بازی میں بہت کمزوریاں ہیں۔ جو آپکو اپنے استاد کی طرح دجال ثابت کر رہی ہیں۔

ملنگ صاحب نے خالص جھوٹ کی بنیاد پھر ایک مجہول شخص کی دی گئی گالیاں پیش کرکے اپنے تھریڈ کواہل حدیث کا قرآن اور حدیث کا عنوان دیا ہے اور اسطرح اپنی انتہائی گندی ابلیسی ذہنیت کے مطابق ان گالیوں کو اہل حدیث کا قرآن اور حدیث بارور کروایا ہے۔ ملنگ دجال کا گالیوں کو اہل حدیث کاقرآن حدیث کہنا ایک طرف تو اہل سنت واہل حق اہل حدیث پر بہتان عظیم ہے اور دوسری طرف اس کلام اللہ اور ارشادات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید ترین توہین و گستاخی ہے جسے اہل حدیث اپنی ہر تقریر اور تحریر میں پیش کرتے ہیں۔ملنگ دجال سے ہمارا پرزور مطالبہ ہے کہ اپنے دعویٰ کے مطابق اہل حدیث کی تحریروں اور تقریروں سے ان گالیوں کا قرآن وحدیث ہونا ثابت کرے۔ ورنہ غلام احمدقادیانی اور امین اوکاڑوی والے انجام کا انتظار کرے۔

ایک فرد واحد اور مجہول شخص کی بکواسات کو ملنگ صاحب پوری اہل حدیث جماعت کی طرف منسوب کرتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں غیرمقلدین کا فتویٰ کہ امام ابوحنیفہ متعہ کی پیدائش اور حرامی تھے۔ حالانکہ یہ ایک فرد واحد(جس کو اہل حدیث ثابت کرنا ابھی ملنگ پر ادھارہے) کا فعل ہے اسکا خود ملنگ صاحب کو بھی اقرار و اعتراف ہے لیکن اس کے باوجود بھی اپنے مسلکی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملنگ صاحب نے اسکو غیرمقلدین کا فتویٰ قرار دیا ہے۔ فتویٰ تو مفتی دیتا ہے ملنگ صاحب بتانا پسند کرینگے کہ کون سے اہل حدیث مفتی نے یہ فتویٰ دیا ہے؟؟؟!!!۔


مضمون کے آخر میں ملنگ صاحب نے اہل حدیث سے سوال کیا ہے : میرا ان لوگوں سے سوال ہے کہ تمہارے مولوی کونسا بیج بو رہے ہیں جس سے یہ فصل پیدا ہو رہی ہے؟؟؟ سوچو سوچو اور خوب خوب سوچو۔۔۔


ہم نے تو الحمداللہ ملنگ صاحب کی بہتان بازی ثابت کردی ہے جو انہوں نے ایک مجہول شخص کو بنیاد بنا کر جماعت اہل حدیث پر کی ہے۔ اصل میں یہ سوال تو ہمیں دیوبندی مقلدین سے کرنا چاہیے۔لہذا میرا دیوبندیوں سے سوال ہے کہ تمہارے ہم جنس پرست اکابرین نے کون سے پودے لگائے تھے جو آج درخت بن کر اتنے گندے پھل دے رہے ہیں؟ ؟؟

اس کے ثبوت میں ہم ملنگ کی طرح کسی مجہول شخص کی عبارت نہیں بلکہ انکے اپنے فورم کے مستقل دیوبندی ممبران کی تحریرات پیش کر رہے ہیں آپ ان کی گندی اور غلیظ زبان ملاحظہ فرمائیں اور سوچیں کیا دیوبندیوں کی گندی نسل ان کے اکابرین کی ہم جنس پرستی کا نتیجہ ہے یاان کے کسی اور کالے کرتوتوں کا؟؟؟

۔۱۔ حق فورم کے ممبر حافظ 786 اپنے حنفی بریلو ی بھائیوں کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: تم نے امریکہ کے زنا کے اڈوں پر کا م کرنے والی اپنی رنڈیوں بہنوں کی تصویروں سے فورم کو بھر کر رکھ دیا۔

۔۲۔ ایک دوسری جگہ پر یہی حافظ 786 اپنی دودھ سے دھلی ہوئی زبان میں اپنے امام ابوحنیفہ کے مقلدین بریلوی حضرات سے اس انداز میں مخاطب ہوتے ہیں:یہاں جناب خلیفہ صاحب اس بریلوی رنڈیوں کے عاشق کے کام سے متاثر ہو کر۔۔۔۔
لطیفہ: حافظ 786ایک جگہ پر ایک بریلوی کو وضاحت پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ دیوبندیوں کے خلاف جو زبان بریلوی استعمال کرتے ہیں اور جواب میں جو زبان دیوبندی استعمال کرتے ہیں اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں گے تو اس میں آپکو زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔حافظ صاحب یہ بتا کر کہ بریلوی دیوبندی اکابرین کو گالیا ں دیتے ہیں اپنے طرز عمل اور رد عمل کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: کوشش کی گئی ہے کہ جواب میں حقائق پر ثبوت کے ساتھ بات کی جائے اور شریعت کے دائرہ کے اندر رہ کر اپنی جوابی تلخی کا اظہار کیا جائے ۔ اور اس کا زیادہ تر اظہار گالی دینے کے بجائے مزاح سے کیا گیا ہے۔

حافظ 786 کی مذکورہ وضاحت اور اوپر بیان کیے گئے ان کی زبا ن کے جوہرملاحظہ فرمائیں اور آپ خود فیصلہ کرلیں کہ دیوبندی کتنے بڑے جھوٹے اور دوغلے ہیں۔


دیوبندی تابوت میں آخری کیل ٹھوکتے ہوئے ہم حافظ 786 کی وہ عبارت پیش کرتے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اور حق فورم کے دیگر ممبران کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ گالی کے جواب میں گالی ہی دی جائے گی۔ دیکھئے موصوف لکھتے ہیں: 
ہم لوگ کٹر رضا خانیوں سے اس زبان میں بات کرینگے جو زبان ان کی کتابوں 
میں ہمارے اکابر کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔





۔۳۔ حق فورم کے دیوبندی ممبر دیوبند لور کا انداز خطاب ملاحظہ فرمائیں: تیری ناقص عقل میں تو رضا خان المعروف چولہ اٹھا کر رنڈیوں کو دیدار عام کرانے والی سرکار کی طرح کچھ بھی آسکتا ہے۔


۔۴۔ اب مدنی منا کی دیوبندایانہ زبان بھی ملاحظہ فرمالیں موصوف رقمطراز ہیں:پھٹے کنڈم کی اولاد ،احمد رضا خان کی ناجائز اولا د ،زبان سنبھال اپنی۔


۔۵۔ عبدالرحمان حنفی کی یہ وہ زبان ہے جس کی وصیت انہیں دیوبندی اکابرین کر کے گئے۔پڑھیے اور دیوبندی اکابرین کے اخلاق کی داد دیجیے۔شعیب نسل ابلیس تو رضا خان کی ناجائز غلیظ اولا د ہے۔جو کالا کانا فرنگی کتا تھا انگریزوں کے تلوے چاٹتا تھا ان کے جوتے پالش کرتا تھا۔ ننگی عورتوں کا دیدار کرتا تھا لوگوں کے گھروں میں تاک جھانک کرتا تھا ۔ اٹھارہ سال کی جوان لڑکی کو بوڑھی عورت کی چھاتیوں سے دودھ پیتے دیکھتا تھا ۔ بچپن سے ہی غلیظ فطرت تھا ۔تیر ا کالا کتا باپ جو فاحشاؤں کو ستر کھول کر دکھاتا تھاجو نقی علی کے متعے کی پیداوار تھا جسے نقی علی نے ابلیس اور دجال کی غلامی کے لئے تیار کیا ۔تیرے غلیظ خنزیرسے بدتر باپ۔۔۔۔۔مناظرے سے تیر ا کالا کافر باپ سعید اسد بریلوی رضاخانی بازاری کتا بھاگا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن تو غلیظ خارشی بازاری رضاخانی کتاہے۔


۔۶۔ میاں ارسلان یہ حق فورم کے منتظم ہیں اور یہ بھی دیگر دیوبندیوں کی طرح اعلیٰ اخلاق کے حامل ہیں ان کی تحریر ملاحظہ کریں:جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان نامی ایک دماغی مریض اس فورم پر اپنی ماں ، بہن کی ایڈورٹائزمنٹ کرنے کے جرم میں پہلے بین ہوچکا ہے۔
یہ ہے اکابرین دیوبند کی تعلیم اور دیوبندی مذہب کے ماننے والوں کا اصلی چہرہ جو ان کی تحریروں سے واضح ہے 
اور جو ثابت کرتا ہے کہ یہ لوگ اندر سے بھی گندے ہیں اور باہر سے بھی۔


دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

اہل باطل ،اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے جن چیزوں کو بنیاد بناتے ہیں ان کی حقیقت کھلنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ اونچی دکان کے پھیکے پکوان سے زیادہ کچھ نہیں۔جواعتراضات بظاہر بہت بڑے اور قوی محسوس ہوتے ہیں انکی اصلیت سے پردہ ہٹنے کے بعدوہ اتنے ہی بے حقیقت، بے وقعت اور بے معنی نظر آتے ہیں۔اہل باطل کے اسی طرح کے ایک دھوکے کو ہم نے زیر نظر مضمون میں اللہ رب العالمین کی توفیق سے بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے۔ 

مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا: پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید مطلق کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں۔(اشاعۃ السنۃ،صفحہ 88، جلد 11) ۔

چونکہ مذکورہ عبارت عام مقلدین بالخصوص مسلک اہل حدیث سے تعصب اور بغض رکھنے والوں کے لئے نہایت پرکشش تھی اسی لئے اس مرغوب حوالے کو غالی مقلدین کی جانب سے تقلید کی اہمیت اور ترک تقلید کے نقصان میں بکثرت نقل کیا گیا ہے جیسے: 

۔01۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر،جلد اول کے صفحہ 615 پر
۔02۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی کی کتاب اختلاف امت صراط مستقیم کے صفحہ 30 پر
۔03۔ صوفی منقار شاہ دیوبندی کی کتاب وھابیوں کا مکر و فریب کے صفحہ 62 پر
۔04۔ ابو بلال جھنگوی کی کتاب تحفہ اہل حدیث کی ہر جلد کے آخری ٹائٹل پر
۔05۔ سیدفخر الدین احمد دیوبندی کی کتاب رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں کے صفحہ نمبر 5پر
۔06۔ صوفی محمد اقبال قریشی دیوبندی کی کتاب ھدیہ اھلحدیث کے صفحہ 239 پر
۔07۔ مولانا محمد شفیع دیوبندی کی کتاب مجالس حکیم الامت کے صفحہ 242 پر
۔08۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب الکلام المفیدفی اثابت التقلید کے صفحہ 183پر
۔09۔ محمد زید مظاہری ندوی دیوبندی کی کتاب اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ کے صفحہ 104 پر
۔10۔ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی کتاب سبیل السدادمیں

افسوسناک امر یہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام احباب نے من مانی کرتے ہوئے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت میں موجود لفظ’’ تقلید مطلق ‘‘سے تقلید شخصی کا من چاہا معنی مراد لیا ہے حالانکہ تقلید مطلق سے تقلید شخصی مراد لینے کی کوئی معقول وجہ یا قرینہ بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت میں سرے سے موجود نہیں۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی مولانا بٹالوی رحمہ اللہ کی تقلید مطلق سے متعلق عبارت کو نقل کرنے کے بعد بغیر کسی قرینے اور شاہد کے اس سے الٹا اور برعکس مطلب و نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہوگی کہ عامی آدمی کو ایک معین امام کی تقلید ہی کیوں ضروری ہے؟ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 31) ۔

تقلید مطلق کو اپنی مطلب برآوری کے لئے بلاوجہ تقلید شخصی بنا دینا یوسف لدھیانوی جیسے دیانت و امانت کے دشمن دیوبندیوں کا ہی کام ہے!!!جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا عام آدمی کے لئے توبرا اور قابل مذمت فعل ہے ہی لیکن جب یہی ناجائز اور برا فعل ایک عالم دین کہلاوانے والے شخص سے جان بوجھ کر سرزد ہو تو اسکی مذمت اور برائی شدید ترہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات ان تقلید کی بیماری میں مبتلا علما ئے سوء کو سمجھ میں آجائے تو یہ لوگ عوام الناس کو دغا دینے جیسے قبیح عمل سے تائیب کیوں نہ ہوجائیں؟!! 

چونکہ دھوکہ دہی، دغابازی، غلط بیانی، مغالعہ انگیزی اور کذب بیانی جیسے افعال تقلید کی گندی کوکھ میں ہی پرورش پاتے ہیں اس لئے تقلید اور ان مکارم اخلاق چیزوں کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص مقلد ہو اور وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لئے جھوٹ نہ بولے اور لوگوں کو مبتلائے دھوکہ نہ کرے۔ بہرحال محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت اپنے مفہوم پر واضح اور دو ٹوک ہے جس سے مقلدین کا اپنے مطلب کا خود ساختہ معنی و مفہوم مراد لینے کی اس کے علاوہ کوئی معلوم وجہ نہیں کہ حق و باطل کو خلط ملط کرکے اپنے جاں بلب مذہب میں کچھ جان پھونکی جائے۔ 

اس بحث کومزید بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تقلید کی اقسام اور انکی تعریف متعین و معلوم کر لی جائے۔تقلید کی دو اقسام ہیں جن میں ایک کوتقلید شخصی یا معین تقلید اور دوسری تقلید غیر شخصی یا تقلید مطلق کہا جاتا ہے۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تقلید کی ان اقسام کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: 

۔1۔ تقلید غیر شخصی (تقلید مطلق)۔

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد) بغیر کسی تعین وتخصیص کے غیر نبی کی بے دلیل بات کو آنکھیں بند کرکے، بے سوچے سمجھے مانتا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقلید مطلق کی اس تعریف کی تائید تقی عثمانی دیوبندی کی اس وضاحت سے بخوبی ہوتی ہے: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121) ۔

اپنی ایک اور تصنیف میں تقی عثمانی صاحب تقلید مطلق کی تعریف ایسے کرتے ہیں: پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو ’’تقلید مطلق‘‘ یا ’’تقلید عام‘‘ یا ’’تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

پس معلوم ہوا کہ متعین کئے بغیراپنی مرضی سے کسی بھی امتی کی تقلید کر لینا ہی تقلید مطلق ہے۔ 

۔2۔ تقلید شخصی

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد)تعین و تخصیص کے ساتھ، نبی ﷺ کے علاوہ کسی ایک شخص کی ہر بات (قول وفعل)کو آنکھیں بند کرکے،بے سوچے سمجھے اندھا دھند ماننا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقی عثمانی دیوبندی تقلید شخصی کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے ’’تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

ملا جیون حنفی لکھتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چار وں اماموں کی اتباع کی جائے گی۔(تفسیرات الاحمدی،صفحہ 566) ۔

اس عبارت میں تقلید کے لئے صرف چار اماموں کا تعین و تخصیص ہی تقلید شخصی کی مثال ہے۔یاد رہے کہ ان چاروں میں سے ایک وقت میں صرف ایک ہی کی تقلید آل تقلید کے ہاں ضروری اور واجب ہے ۔جیسے خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانے میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،صفحہ38) ۔

تقلید کی ہر دو اقسام کی تعریف کے تعین پر فریقین کے اتفاق سے یہ تفصیل سامنے آئی کہ ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید، تقلید شخصی ہے اور ائمہ اربعہ یا ان کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مخصوص امام کا تعین کئے بغیر بلادلیل جس سے جو چاہا مسئلہ لے لینا اور اس پر عمل کرنا تقلید مطلق ہے۔ 

مندر جہ بالا تفصیل سے تقلید شخصی اور تقلید مطلق کا فرق واضح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت ابوحنیفہ کی اندھی تقلید کے دعویداروں کے سراسر خلاف جاتی ہے کیونکہ ان مقلدین کے ہاں مطلق تقلید حرام اور موجب گمراہی جبکہ تقلید شخصی واجب ہے۔ اب مخالفین کے اپنے مستند علماء کی عبارات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو بٹالوی مرحوم کی عبارت کو اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ تقلید شخصی اور تقلید مطلق کو کیا حیثیت و اہمیت دیتے ہیں اور تقلید کی ان دو اقسام میں سے کون سی تقلید ان کے ہاں صحیح اور کونسی غلط بلکہ موسبب فتنہ و گمراہی ہے۔ 

۔1۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی تقلید شخصی کی ضرورت اور تقلید مطلق کے نقصان کی وضاحت میں رقم طراز ہیں: علماء نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر عامی آدمی کو اس کی اجازت دی جائے کہ اس کو اختیار ہے کہ کسی امام کے مذہب کو لے کر وہ اس پر عمل کر لے تو اس صورت میں رخصت اور آسانی تلاش کرے گا ۔اس کا دل چاہے گا تو ایک چیز کو حلال کہے گا اور کبھی خیال بدل گیا تو وہ اسی کو حرام کہے گا کیونکہ ائمہ اربعہ میں بعض احکام میں حلت و حرمت کا اختلاف ہے۔(تجلیات صفدر، جلد اول، صفحہ 655) ۔

پس امین اوکاڑوی دیوبندی کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ مقلدین کے ہاں تقلید مطلق سراسر گمراہی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی آل تقلید کی ستم ظریفی اوردھوکہ دہی ملاحظہ فرمائیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کی جو عبارت براہ راست خود ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھی اسی عبارت کو کس دیدہ دلیری سے انہوں نے اپنے مخالفین یعنی تقلید نہ کرنے والوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ 

۔2۔ اشرف علی تھانوی کے اس کلام میں بھی تقلید مطلق کے باعث فساد ہونے کا واضح اشارہ موجودہے: تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 78) ۔

۔3۔ تقی عثمانی دیوبندی عوام الناس کو مطلق تقلید سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں: صرف ایک امام کی تقلید لازم و ضروری بلکہ واجب ہے،کبھی کسی کی اور کبھی کسی اور کی تقلید کی تو گمراہ ہوجائے گا اور دین کھلونا بن جائے گا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 120) ۔

۔4۔ نور محمد قادری تونسوی دیوبندی تقلید مطلق کودین و مذہب کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: کوئی مسئلہ کسی امام کا اور کوئی کسی کا ،لے کر چلنابھی درحقیقت امام کی اتباع کے نام پر اتباع خواہش ہے جو آدمی کے دین اور ایمان کے لئے خطرے کا سنگ میل ہے۔(سہ ماہی قافلہ حق،شمارہ نمبر7، صفحہ 9)۔

۔5۔ تقی عثمانی صاحب ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا آخر اس میں قباحتوں نے جنم لینا شروع کیا یا اس کا خدشہ تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)۔

درج بالا حوالے میں وہ کون لوگ ہیں جو ابتداء میں تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں: مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43) ۔

بقول مقلدین تقلید مطلق پہلے جائز تھی ا س لئے کے اس میں خیر تھی کیونکہ ان کے خیال سے صحابہ تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے لیکن اب اس میں سوائے شر کے اور کچھ نہیں ۔مطلب یہ کہ موجودہ زمانے میں تقلید شخصی چھوڑ کر تقلید مطلق اختیار کر لینا یقینی گمراہی کا سبب ہے۔ 

مندرجہ بالا دلائل سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ دیوبندیوں نے صرف شعبدہ بازی سے کام لے کر تقلید مطلق سے تقلید شخصی کشید کرنے کی ناکام کوشش کی ہے وگرنہ پیش کردہ اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت سے اظہر من الشمس ہے کہ تقلید مطلق کو ترک کرنے والا بالآخر گمراہ ہوجاتا ہے اس کے برخلاف و برعکس آل تقلید کے نزدیک تقلید مطلق کو اختیار کرنے والاگمراہ ہوجاتا ہے۔اس زبردست تضاد واختلاف کے باوجود بھی مقلدین کا ایک ایسی عبارت کو جو ان کے تقلید ی نظریہ کے خلاف ہے، سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے حق میں استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ دیانت و امانت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس بات سے بھی بالکل بے خوف ہیں کہ انکی کھلی دغابازی کا پول کھلنے پر انہیں شرمندگی اور ندامت بھی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔یہ حضرات شاید اہل حق کو بھی تقلیدی بیماری کے شکار لوگوں کی طرح اندھا اور بہرا جاننے کی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

اسی طرح جہاں تک اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی مرحوم کی( مقلدین کی جانب سے نقل کر کے اہل حدیث ہی کے خلاف پیش کی جانے والی) عبارت میں مجتہد مطلق کے تارک بننے کو ناپسندیدہ اور گمراہی کا سبب بتایا گیا ہے تو یہ بات بھی آل تقلید کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خود ساختہ مذہب کے خلاف ہے کیونکہ انکے ہاں مطلق مجتہد کے بجائے مخصوص اور متعین مجتہدین سے چمٹے رہنا اور انکی اندھی تقلید کرتے رہنا ہی واجب ہے جنھیں ائمہ اربعہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ۔ احناف کی انتہائی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں مندرج ہے: عوام الناس بحث اور تحقیق نہیں کرسکتے تو ان پر چار اماموں کی تقلید لازمی ہے جو تحقیق کر چکے ہیں۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

صاوی نے سورہ کہف کی تفسیر میں لکھا ہے: چار مذاہب کے علاوہ کسی کی تقلیدجائز نہیں۔ 

مقلدین نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے صرف ائمہ اربعہ کی تقلیدکے واجب ہونے پر اجماع کا خود ساختہ دعویٰ بھی کردیا ہے۔چناچہ ملاجیون حنفی نے لکھا ہے: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چاروں اماموں کی اتباع کی جائے۔(تفسیرات الاحمدی، صفحہ 566) ۔

قارئین سے عرض ہے کہ زرا ایک مرتبہ پھر آغازمضمون میں نقل کی گئی بٹالوی مرحوم کی عبارت کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کے نزدیک تو مطلق مجتہد سے تعلق توڑنے والا بالآخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتا ہے جبکہ آل تقلید کے ہاں مطلق مجتہد سے تعلق جوڑنے والا گمراہی کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلق مجتہد کی تقلید اختیار کرنا اجماع کی مخالفت اور واجب کا انکارہے۔تقلید ی حضرات اپنے خود ساختہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور کو تو دور کی بات کسی صحابی کو بھی واجب الاتباع و تقلید ماننے کو تیار نہیں۔ 

مسلم الثبوت میں لکھا ہے: محققین کا اس پر اجماع ہے کہ عامتہ المسلمین صحابہ کرام کی تقلید اور اتباع نہیں کرینگے کیونکہ بسا اوقات ان کے اقوال واضح نہیں ہوتے۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

احناف کے اس اصول میں مجتہدین اربعہ سے کروڑہا درجے بہتر اور علم وفضل، نیکی وتقوی اور قر آن و حدیث کی معرفت اور فقاہت میں افضل ترین مجتہد صحابہ کرام کی واضح تنقیض اور توہین پائی جاتی ہے اور اس پر متزاد انکے بزرگان دین کے ادب و احترام کے کھوکھلے بلند و بانگ دعوے!!! احناف کے ان مسلمہ اصولوں کے بعد انہیں بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت کو اہل حدیث کے خلاف پیش کرتے ہوئے ہزار بار شرمانا چاہیے تھاکیونکہ مذکورہ عبارت خود احناف ہی کے خلاف ہے۔ لیکن آہ!شرم تم کو مگر نہیں آتی 

محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت کے دیگر جوابات کے لئے تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث از محمد داود ارشد اور صراط مستقیم اور اختلاف امت بجواب اختلاف امت صراط مستقیم از مولانا صغیر احمد بہاری رحمہ اللہ کی مراجعت فرمائیں۔