اکابرین دیوبند کی ہم جنس پرستی

اس عنوان کے تحت میں نے جس دیوبندی کتاب کو ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے پہلے اس کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔
تعارف کتاب: ارواح ثلاثہ دیوبندیوں کی مشہور مذہبی کتاب ہے۔ یہ دراصل تین کتابچے ہیں جنھیں ایک کتاب میں جمع کردیا گیا ہے۔اس کتاب کو دو نام دئے گئے ہیں ایک حکایات اولیاء اور دوسرا ارواح ثلاثہ۔ چونکہ اس کتاب میں اکابرین دیوبند کے واقعات اور حکایات ہیں اس لئے اسے حکایات اولیاء کا نام دیا گیا ہے۔ اور ارواح ثلاثہ کا نام دینے کی وجہ میرے نزدیک یہ ہے کہ اس کتاب میں موجود حکایات جمع کرنے والے تینوں اشخاص یعنی امیر شاہ خان، قاری محمد طیب اور اشرف علی تھانوی تینوں وفات پاچکے ہیں۔
کتاب کی خصوصیت اس کا اسناد سے مزین ہونا ہے اور کتاب میں پیش کئے گئے تمام واقعات مستند اور سچے ہیں: اس کتاب میں جابجا یہ بات موجود ہے اکابرین دیوبند کی یہ حکایات صرف مستند لوگوں سے جمع کی گئی ہیں اور ان حکایات اور واقعات کی اسناد کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے۔یعنی یہ تمام واقعات جو اس کتاب میں درج کئے گئے ہیں اشرف علی تھانوی اور دیگر دیوبندیوں کے نزدیک مستند اور سچے ہیں۔
کتاب کا مقصد بزرگوں کے واقعات سے فیض اٹھانا ہے: ارواح ثلاثہ کے مقدمہ میں ظہور الحسن دیوبندی کتاب کا مقصد یہ بتاتے ہیں کہ بہت سے لوگ جو دنیاوی زندگی میں بہت مصروف ہوتے ہیں اور بزرگوں کے پاس نہیں بیٹھ سکتے اور فیض صحبت نہیں اٹھا سکتے خصوصاً ان لوگوں کے لئے اکابرین دیوبند کی ان حکایات اور واقعات کو جمع کیا گیا ہے تاکہ وہ بھی ان واقعات کو پڑھکر بزرگوں کی صحبت کا فیض اٹھا سکیں کیونکہ ان کے لئے کتابوں کا مطالعہ ہی صحبت نیک کا قائم مقام ہے۔

لمحہ فکریہ

ان تفصیلات کی روشنی میں اب ان مستند اور سچے واقعات کو پڑھیں جو کہ دیوبندیوں کے لئے قابل اتباع ہیں اور ان دو نمبر اہل حق دیوبندی فرقے کے بارے میں خود فیصلہ کریں کہ یہ کس طر ح دین کے نام پر بے حیائی اور بے غیرتی کو مسلمان معاشرے میں فروغ دے رہے ہیں۔یہ نوٹنکی دیوبندی فرقہ جو اپنے ماتھے پر اہل حق کا اسٹیکر لگا کر اپنے اکابرین کے سیاہ کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔جبکہ ان کے اکابرین کی تمام زندگی لڑکوں سے منہ کالا کرواتے ہوئے گزری ہے۔ کیا اہل حق کا اسٹیکر لگا لینے سے ان کے اکابرین کے چہروں کی سیا ہی دھل جائے گی؟؟؟
 بلاتبصرہ

میں ان واقعات پر کوئی تبصرہ نہیں کرونگا کیونکہ نجاست اور بے غیرتی کی جس گہرائی میں دیوبندی فرقہ اتر چکا ہے اس پر تبصرہ کرکے میں اپنی زبان گندی نہیں کرسکتا ۔یہ بے حیائی کی انتہاء دو نمبر اہل حق دیوبندیوں کو مبارک ہو۔پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو آج دین کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں اور اندر سے کتنے گندے اور خبیث ہیں۔ اللہ ان کے شر سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے ۔آمین

حکایت نمبر۳۰۵: حضرت والد ماجدمولانا حافظ محمداحمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ اور عم محترم مولانا حبیب الرحمن صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ ایک دفعہ گنگوہ کی خانقاہ میں مجمع تھا۔ اور حضرت گنگوہی اور حضرت ناناتوی کے مردید و شاگرد سب جمع تھے اور یہ دونوں حضرات بھی وہیں مجمع میں تشریف فرما تھے کہ حضرت گنگوہی نے حضرت ناناتوی سے محبت آمیز لہجے میں فرمایاکہ یہاں زرا لیٹ جاؤ۔حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کچھ شرما سے گئے۔مگر حضرت نے پھر فرمایا تو مولانا بہت ادب کے ساتھ چت لیٹ گئے۔حضرت بھی اسی چارپائی پر لیٹ گئے اور مولانا کی طرف کو کروٹ لے کراپنا ہاتھ ان کے سینے پر رکھ دیا جیسے کوئی عاشق صادق اپنے قلب کو تسکین دیا کرتا ہے۔ مولانا ہرچند فرماتے ہیں کہ میاں کیا کررہے ہویہ لوگ کیا کہیں گے ۔حضرت نے فرمایا لوگ کہیں گے کہنے دو۔

حکایت نمبر۲۲۶: خان صاحب نے فرمایاکہ جب منشی ممتاز علی کا مطبع میرٹھ میں تھا۔اس زمانہ میں ان کے مطبع میں مولانا ناناتوی بھی ملازم تھے اور ایک حافظ صاحب بھی نوکر تھے۔یہ حافظ جی بالکل آزاد تھے۔رندانہ وضع تھی چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے۔داڑھی چڑھاتے تھے۔ نماز کبھی نہ پڑھتے تھے مگر مولانا ناناتوی سے ان کو اور مولانا ناناتوی کی ان سے نہایت گہری دوستی تھی ۔وہ مولانا کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔اور مولانا ان کو نہلاتے اور کمر ملتے تھے۔مولانا ان کو کنگھا کرتے تھے اور وہ مولانا کو کنگھا کرتے تھے۔اگر کبھی مٹھائی وغیرہ مولانا کے پاس آتی تو ان کا حصہ ضرور رکھتے تھے۔غرض بہت گہرے تعلقات تھے ۔مولانا کے معتقد دوست مولانا کی ایک ایسے آزاد شخص کے ساتھ اس قسم کی دوستی سے ناخوش تھے مگر وہ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ایک مرتبہ جمعہ کا دن تھا۔مولانا نے حسب معمول حافظ جی کو نہلایا ۔او ر حافظ جی مولانا کو جب نہلا چکے تو مولانا نے فرمایا حافظ جی تم میں اور مجھ میں دوستی ہے.....الخ

حکایت۲۴۴: والد صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ چھتے کی مسجد میں مولانا فیض الحسن صاحب استنجے کے لئے لوٹا تلاش کر رہے تھے اور اتفاق سے سب لوٹوں کی ٹونٹیاں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ فرمانے لگے کہ یہ تو سارے ہی لوٹے مختون ہیں ۔حضرت نے ہنس کر فرمایا پھر آپ کو تو بڑا استنجا نہیں کرنا ہے۔(گویا مختون سے کیا ڈرہے)۔

حکایت ۲۵۱: حضرت والد صاحب مرحوم نے فرمایا کہ مولانا منصور علی خان صاحب مرحوم مراد آبادی حضرت ناناتوی رحمتہ اللہ علیہ کے تلامذہ میں سے تھے۔طبیعت کے بہت پختہ تھے اس لئے جدھر طبیعت مائل ہوتی تھی پختگی اور انہماک کے ساتھ ادھر جھکتے تھے۔انہوں نے اپنا واقعہ خود بھی مجھ سے نقل فرمایا کہ مجھے ایک لڑکے سے عشق ہوگیا اور اس قدر اس کی محبت نے طبیعت پر غلبہ پایا کہ رات دن اسی کے تصور میں گزرنے لگے میری عجیب حالت ہوگئی تمام کاموں میں اختلال ہوگیا۔حضرت کی فراست نے بھانپ لیا لیکن سبحان اللہ تربیت و نگرانی اسے کہتے ہیں کہ نہایت بے تکلفی کے ساتھ حضرت نے میرے ساتھ دوستانہ برتاؤ شروع کیا اور اسے اس قدر بڑھا یا کہ جیسے دو یار آپس میں بے تکلف دل لگی کیا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود ہی اس محبت کا ذکر چھیڑا ۔ فرمایا کہ ہاں بھئی وہ (لڑکا) تمہارے پاس کبھی آتے بھی ہیں یا نہیں؟ میں شرم و حجاب سے چپ رہ گیا تو فرمایا کہ نہیں بھائی یہ حالات تو انسان ہی پر آتے ہیں۔اس میں چھپانے کی کیا بات ہے غرض اس طریق سے مجھ سے گفتگو کی کہ میری ہی زبان سے اس کی محبت کا اقرار کرالیا۔اور کوئی خفگی اور ناراضگی نہیں ظاہر کی۔بلکہ دل جوئی فرمائی.....الخ

حکایت ۲۱۰: حضرت حافظ صاحب کے مزاج اور خوش مزاجی کے بہت قصے بیان فرمایا کرتے تھے۔ایک بار فرمایا ۔حافظ صاحب کو مچھلی کے شکار کا بہت شوق تھا۔ایک بار ندی پر شکار کھیل رہے تھے۔کسی نے کہا’’ حضرت ہمیں‘‘ آپ نے فرمایا’’اب کے ماروں تیری‘‘

حکایت ۱۱۴: میں سید صاحب کے دونوں پاؤں کے درمیان بیٹھا تھاتو چونکہ میں چھوٹا بچہ تھا اس لئے سید صاحب کے پاؤں چھیڑ رہا تھا۔کبھی اس پاؤں کو چھیڑتا تھا کبھی دوسرے پاؤں کو۔اور چھیڑتا اس طرح تھا کہ قدم پر ہاتھ رکھ کر گدگداتا ہوا اوپر کو لے جاتا تھا۔لیکن جب میرا ہاتھ نصف ساق سے اوپر جاتا تو فوراً سید صاحب اسے نیچے اتار دیتے تھے بہت سی دفعہ میں نے ایسا ہی کیا اور سید صاحب نے ہمیشہ میرے ہاتھ کو نیچے اتار دیا۔

حکایت ۱۰۰: خاں صاحب نے فرمایا کہ میاں جی محمدی صاحب حکیم خادم علی صاحب شیخ فیاض علی صاحب شیخ قاسم علی صاحب یہ چاروں ماموں ’پھوپھی‘ خالہ زاد بھائی تھے۔ ان میں سے شیخ قاسم علی صاحب شاہ عبدالعزیز صاحب کے کچھ شاگرد تھے ان پر نہایت فریفتہ تھے ۔ میاں جی محمدی صاحب سید صاحب کے مرید اور ان پر عاشق تھے ۔حکیم خادم علی صاحب مولوی محمد اسمٰعیل صاحب پر دیوانہ تھے۔شیخ فیاض علی صاحب شاہ اسحاق صاحب پر فریفتہ تھے ۔

حکایت ۲۷۱: فرمایا کہ امیر شاہ خاں صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بزرگوں کی شانیں مختلف ہوتی ہیں ۔ بعضوں کے خدام تو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اور بعضوں کے نہیں ہوتے ۔ چناچہ مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خدام آپ کے عاشق تھے۔

حکایت ۲۱۵: اب سنو کہ لکھنو کے اطراف میں ایک مقام پر ایک عالم رہتے تھے۔وہ ایک لڑکے پر عاشق تھے اور اس کو بہت محبت سے پڑھاتے تھے ۔ جب والد صاحب کو اس کے حسن کا قصہ معلوم ہوا تو وہ حسب عادت اسے دیکھنے چل دئیے۔ جس مسجد میں وہ رہتے تھے اس کے جنوب میں ایک سہ دری تھی اور اس سہ دری کے اند رجانب غروب ایک کوٹھری تھی اور اس کوٹھری کے آگے شمالاً اور جنوباً ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی ۔ جس وقت والد صاحب پہنچے ہیں تو اس وقت لڑکا کوٹھری کے اندر تھا ۔اور وہ عالم اس چارپائی سے کمر لگائے ہوئے اور کوٹھری کی طرف پشت کیے ہوئے بیٹھے تھے۔والد صاحب اسباب رکھ کر ان عالم سے مصافحہ کرنے لگے جب یہ سہ دری میں پہنچے ہیں تو وہ لڑکا ان کودیکھ کر کوٹھڑی میں سے نکلا ۔ والد صاحب نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھائے تھے کہ ان کی نظر لڑکے پر پڑ گئی جس سے مصافحہ تو رہ گیا اور وہ والد صاحب اس لڑکے کو دیکھنے میں مستغرق ہوگئے ان عالم نے جب یہ دیکھا کہ یہ مصافحہ کرنا چاہتے تھے ’ مگر مصافحہ نہیں کرسکے تو انہوں نے منہ پھیر کر اپنے پیچھے دیکھا تو ان کو معلوم ہوا کہ لڑکا کھڑا ہے ۔اور یہ اس کے دیکھنے میں مصروف ہیں جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ حضرت بھی ہمارے ہم رنگ معلوم ہوتے ہیں تو انہوں نے اس لڑکے کو آواز دی اور کہا کہ ان صاحب سے مصافحہ کرو۔وہ لڑکا آیا اور اس نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھا یا ۔اس وقت ان عالم صاحب نے یہ شعر پڑھا ۔
ایں ست کہ خوں خوردہ و دل بردہ بسے را
بسم اللہ اگر تاب نظر ہست کسے را

 حکایت ۲۷۵: فرمایا کہ ایک مرتبہ نبو پہلوان نے جو دیوبند کا رہنے والا تھاباہر کے کسی پہلوان کو پچھاڑ دیا تو مولانا محمد قاسم صاحب رحمتہ اللہ علیہ کو بڑی خوشی ہوئی اور فرمایا ہم بھی نبو کو اور اس کے کرتب کو دیکھیں گے۔حافظ انوار الحق کی بیٹھک میں اسے بلایا اور سب کرتب بھی دیکھے۔مولانا بچوں سے ہنستے بولتے بھی تھے اور جلال الدین صاحبزادہ مولانا محمد یعقوب صاحب سے جو اس وقت بالکل بچے تھے‘ بڑی ہنسی کیا کرتے تھے کبھی ٹوپی اتارتے کبھی کمر بند کھول دیتے تھے۔















 جب حیا نہ رہے۔۔۔

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرو۔ مطلب یہ کہ جب انسان میں سے حیا رخصت ہوجاتی ہے تو وہ بے شرم ہو جاتا ہے پھر اسے کوئی بھی قابل اعتراض بات قابل اعتراض نہیں لگتی۔اعتراض کی صورت میں وہ الٹا لوگوں سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ آخر اس میں کونسی بات بری ہے؟!

ایسی ہی صورتحال کا سامنا مجھے اس وقت کرنا پڑا جب میں نے پہلی مرتبہ اپنے اس تھریڈ اکابرین دیوبند کی ہم جنس پرستی کو اسلامی محفل میں شیئر کیا اور اسکا لنک حق فورم کے ایڈمن کو ای میل کردیا(اس وقت مجھے حق فورم پر غیرمعینہ مدت کے لئے بین کردیا گیا تھا)۔ حق فورم کے ایڈمن کے پاس سے جو جواب مجھے موصول ہوا، اس پر مجھے انکی غیرت پر ماتم کرنے کو دل چاہا۔ حق فورم کے ایڈمن کا اصل جواب میں تصویر کی صورت میں منسلک کر رہا ہوں چونکہ یہ جواب رومن انگلش میں ہے اسلئے میں آسانی کے لئے اسے اردو میں تحریر کر رہا ہوں۔

مجھے ان میں سے کسی ایک واقعے میں بھی بری بات نظر نہیں آئی ۔اگر آپ کو آئی ہے تو پوائنٹ آؤٹ کریں کہ فلاں واقعے میں فلاں بات بری ہے۔۔۔۔۔
انسانوں کی زندگی میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔اس میں بری بات کونسی ہے۔۔۔۔۔صرف ایک واقعہ ہے بچے پر عاشق ہونے والا تو ہر انسان پر شیطان کبھی نہ کبھی غالب آجاتا ہے اور اس واقعے میں بھی انہوں نے اپنے مستقل عمل کا نہیں بتایا ۔بلکہ جس عمل کا بتا رہے ہیں ،افسوس کے ساتھ بتا رہے ہیں کہ گناہ تھا۔۔۔ویسے مجھے آپ کی پوسٹ وہاں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ کی مدد سے اب ہمیں یہ ثابت کرنے کا موقع ملے گا کہ بریلوی اور غیر مقلد دونوں بھائی بھائی ہیں۔


ہر سلیم الفطرت شخص ان واقعات کو پڑھنے کے بعد کانوں کو ہاتھ لگائے گا ۔ لیکن دیوبندیوں کو ان واقعات میں کوئی بری بات نظر نہیں آرہی!!! اس سے ثابت ہوا کہ دیوبندی سلیم الفطرت نہیں ہیں بلکہ خبث باطن رکھنے والے گندے لوگ ہیں۔ حق فورم کے ایڈمن کے سامنے انکے اکابرین کی بے غیرتی واضح ہونے کے بعد ان کے پاس صرف دو راستے تھے یا تو وہ ان واقعات کو واقعی حیا سوز تسلیم کرتے ہوئے ان سے براء ت کا اظہار فرماتے۔ لیکن یہ انہیں کیونکر گوارا تھا کہ اس عمل سے ان کے ہم جنس پرست اکابرین پر حرف آجاتا اور انکی اکابرپرستی میں کمی واقع ہو جاتی۔ آخری راستہ یہی تھاجسے موصوف نے اختیار کیا کہ بے حیا بن کر اعتراض کرنے والے سے کہتے کہ ان واقعات میں جو غلط بات ہے اسکی نشاندہی کردیں کیونکہ مجھے تو شرم و حیا سے نجات کے بعد ان واقعات میں کوئی بری بات نظر نہیں آرہی۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی


ایک بات ضرور ہے کہ اگر یہ واقعات کسی بریلوی عالم یا ان کے کسی اور مخالف سے منسوب ہوتے تو یہ دیوبندی شرم و حیا کا پیکر بن کر خوب ان واقعات پر تھو تھو کرتے اور اپنے مخالفین پر لعن طعن میں بھی کوئی کمی نہ کرتے۔ دیوبندی علماء مخالفین کی مذمت میں صفحات کے صفحات سیاہ کرتے اور اپنی تقاریر کے ذریعے پروپیگنڈہ کرکے دن رات ایک کردیتے۔ الیاس گھمن اینڈ پارٹی ویسے بھی اس کام میں ماہر ہے۔
لیکن! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے

حق فورم کے ایڈمن کا یہ اعتراف بھی خوب ہے کہ انسانوں کی زندگی میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ میں اس بات سے سوفیصد متفق ہوں لیکن صرف ان انسانوں کی زندگی میں یہ واقعات پیش آتے ہیں جو اس قماش کے ہوتے ہیں جیسے دیوبندی اکابرین اغلام باز تھے اسی لئے ان کی زندگی میں بارہا لڑکوں سے منہ کالا کروانے کے واقعات پیش آئے۔ یہ تو صرف وہ واقعات ہیں جو تحریر میں آسکے ہیں ورنہ معلوم ہوتا ہے کہ دیوبندی اکابرین کی ساری زندگی لونڈے بازی میں ہی گزری ہے۔

آخر میں حق فورم کے ایڈمن سے میری عرض ہے کہ یہ وہ واقعات نہیں ہیں کہ جنھیں آپ سرسری طور پر پڑھ کر آگے بڑھ جائیں بلکہ آپ کے علماء نے حکایات اولیاء کے نام سے یہ واقعات صرف اس لئے ذکر کئے ہیں تاکہ عام دیوبندی جو اولیا ء الشیاطین کی صحبت سے مصروفیت کی وجہ سے محروم رہتے ہیں ان واقعات کو پڑھ کر اور ان پر عمل پیرا ہوکر اپنے بزرگوں سے فیض حاصل کریں۔

شرم کے مارے شاید آپ اقرار نہ کریں لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے بزرگوں کے فیض سے خوب فیضیاب ہوئے ہونگے۔


1 comments:

Sohail نے لکھا ہے

تجھ جیسے حرام کے کے نطفے سے پیدا ہونے والے حرامی ہمیشہ چھپ کر ہی وار کرتے ہیں۔

تجھ میں اگر ہمت ہے تو سامنے آکر انے اوریجنل نام سے بات کر خبیث الباطن بدبخت گھٹیا انسان

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔