کیا یہ تقویٰ ہے؟


مولانا اسماعیل صاحب سنبھلی جو حضرت شیخ الاسلام کی خلافت سے بھی مشرف ہیں۔ اس مشہور واقعہ کے راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ٹرین میں حضرت والا فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو صاحب بہادر بھی اس ڈبہ میں سوار تھے۔ وہ قضا حاجت کے لئے پائخانہ میں گئے اور فوراً واپس آگئے۔ حضرت شیخ نے بھانپ لیا تھوڑی دیر کے بعد خاموشی سے اٹھے پائخانہ میں گئے وہ نہایت ہی گندہ ہو رہا تھا اس کو صاف کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد صاحب بہادر سے دریافت فرمایا کہ آپ پائخانہ سے کیوں واپس آگئے تھے؟ صاحب بہادر نے جواب دیا کہ وہ بہت گندہ ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ تو صاف ہے جاکر ملاحظہ فرمائیں، صاحب بہادر بے حد متاثر ہوئے۔(الجمعیہ شیخ الاسلام نمبر) (اکابر کا تقویٰ صفحہ نمبر 77)۔

حنفی مذہب میں اگر جسم پر نجاست لگ جائے تو تین مرتبہ زبان سے چاٹ کر اسے پاک کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی صد شکر ہے کہ شیخ الاسلام صاحب نے اپنے مذہب پر عمل فرماتے ہوئے اپنی زبان سے پائخانہ کی صفائی نہیں فرمائی بلکہ اس مقصد کے لئے صرف اپنے ہاتھوں ہی کو گندہ فرمایا ورنہ اگر وہ اپنی زبان سے پائخانہ کی نجاست چاٹ لیتے تو ہم کیا کرسکتے تھے سوائے یہ کہنے کے ، حنفی جانیں انکا مذہب جانے۔

جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب نے صرف تقویٰ سے متعلق اپنے سلسلے کے اکابرین کے واقعات زکر کئے ہیں۔ اس بات کی وضاحت اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۱۶پربھی موجود ہے جہاں صوفی محمد اقبال صاحب اپنے مرشد مولانا محمد زکریا صاحب کے حوالے سے اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہیں
بندہ نے مرشد پاک دام مجدہ کی تعمیل ارشاد میں اکابر کے تقویٰ کے چند واقعات حضرت ہی کی کتب سے نقل کردیئے ہیں۔ اور اس کے ساتھ حضرت کی بلا اجازت فصل پنجم میں حضرت کے کچھ واقعات اپنی یاد سے لکھ دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے، پڑھنے والوں میں تقویٰ کے جذبات پیدا فرمائیں۔ (اکابر کا تقویٰ ، ص۱۱۶)۔

اب ہمیں کوئی بتائے کہ پائخانہ کی صفائی کے اس واقعہ کاتعلق تقویٰ سے کس طرح بنتا ہے؟ کیا یہ تقویٰ کے کی کوئی نئی قسم دریافت ہوئی ہے؟! بہت ممکن ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب کے نزدیک یہ بھی تقویٰ ہی ہو کیونکہ ان کی دماغی حالت جو صحیح نہیں تھی (فضائل اعمال کا مقدمہ دیکھئے) لیکن دوسرے دیوبندیوں کی عقل تو ٹھکانے پر ہے۔ ان واقعات کومرتب کرکے کتابی شکل دینے والے صوفی محمد اقبال اور اس کتاب کو چھاپنے والے لوگ ہی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اس واقعہ کو اس کتاب سے نکال دیتے کیونکہ کتاب کے موضوع یعنی تقویٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔اور اگر بنتا ہے تو ہم دلیل کے منتظر ہیں۔


5 comments:

Muslim نے لکھا ہے

شاہد بھائی، دیوبندی حضرات پر اعتراضات کے لئے واقعاتی شواہد کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اس واقعہ پر آپ کا تبصرہ کچھ اپیل نہیں کرتا۔ باتھ روم کی صفائی تو میری بیوی اور میری امی جان بھی کرتی ہیں، اور صفائی نصف ایمان والی حدیث کا تعلق بھی جڑتا ہے۔ اگر کسی صاحب نے پبلک باتھ روم کو گندہ پا کر صاف کر دیا تو کیا اسے بھنگی کے لقب سے نوازنا بہتر ہے یا اسے اس حدیث سے جوڑنا بہتر ہے جس میں راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی نیکی قرار دیا گیا ہے۔
آپ کی نیت پر شبہ نہیں ہے، لیکن یہاں آپ کو غلط فہمی لگی ہے۔ امید ہے کہ آپ رجوع میں تامل نہیں کریں گے۔
والسلام

Unknown نے لکھا ہے

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

مسلم بھائی نشاندہی کا شکریہ۔ بھائی بات یہ ہے کہ باتھ روم کی صفائی گھروں پر عموما خواتین کرتی ہیں اور پبلک باتھ روم کی صفائی بھنگی کرتے ہیں۔ ہمارے علم میں یہ بات نہیں کہ سلف صالحین نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کبھی پبلک ٹوائلٹ کی صفائی کی ہو اور وہ بھی کسی غیرمسلم کے لئے۔ آخر غیرمسلم کا دل جیتنے کے لئے اور بھی تو کئی طریقے ہیں۔ کسی عالم دین اور شیخ الحدیث جیسے قابل عزت شخص کے لئے ہمیں بالکل بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بغیر کسی مجبوری کے ایسی حرکت کرے۔بہرحال آپ کی بات بھی مجھے معقول محسوس ہوتی ہے۔ لیکن میں سو فیصد آپ کی بات سے متفق نہیں۔ ویسے بھی پورا واقعہ پڑھ کر ہمیں یہ حدیث پر عمل کے جذبے سے زیادہ ہندو افسر کا دل جیتنے کی کوشش لگتی ہے۔

ًمضمون میں میرا اصل اعتراض دیوبندی شیخ الحدیث کے ایک ہندو کے لئے ٹوائلٹ کی صفائی پر نہیں بلکہ اس عمل کو تقویٰ سے جوڑنے پر ہے۔ اور ہمیں اسی بات کی دلیل دیوبندیوں سے درکار ہے کہ آخر ایک ہندو کے لئے ٹوائلٹ کی صفائی سے تقویٰ کا کیا تعلق ہے؟

اگر میں آپ کی بات درست تسلیم کرلوں تو میرے مضمون کا عنوان ہی غلط ثابت ہوتا ہے ناکہ پورا مضمون۔جزاک اللہ خیرا

آئندہ بھی اسی طرح میری اصلاح کرتے رہیے گا۔ شاید کہ اتر جائے میرے دل میں تیری بات۔

Muslim نے لکھا ہے

جزاک اللہ شاہد بھائی،
اپنی اپنی سوچ ہے۔ میرے خیال سے کسی شیخ الحدیث کا ٹائلٹ صاف کرنا، اس کی عاجزی ، علمی تکبر سے دوری اور نصف ایمان کی پختگی کی دلیل بنتی ہے۔اور ان سب چیزوں کا تقویٰ سے گہرا تعلق ہے۔
آپ کے دیگر اچھے اور مدلل مضامین موجود ہیں تو اس مضمون کی کمزوری واضح ہو جانے کے بعد اسے بلاگ سے نکال کر کسی اور مضمون کو لے آئیں پلیز۔

ابن بشیر الحسینوی نے لکھا ہے

صفائی نصف ایمان ہے کوئی شک نہیں صفائی جہاں اس کی ضرورت ہو وہاں کر دینی چاہئے ۔
میرے خیال میں جو محترم مضمون نگار نے لکھا ہے اس میں کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے

Unknown نے لکھا ہے

السلام علیکم!
لاعلمی کاعلاج سوال ہے۔اسی لئے میں نے علمائے کرام سے رابطہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا موقف غلط اور محترم شاکر اور ابن بشیر الحسینوی کا موقف صحیح و درست ہے۔ میں ان دونوں حضرات کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری صحیح سمت میں رہنمائی فرمائی۔جزاک اللہ خیرا
اپنی غلطی سے رجوع کرتے ہوئے میں نے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کے ساتھ ساتھ مضمون کا عنوان بھی تبدیل کیا ہے جو اب ’’ایک بھنگی، دیوبندیوں کا شیخ الحدیث‘‘ سے بدل کر ’’کیا یہ تقویٰ ہے؟‘‘ کر دیا گیا ہے۔

میں یہاں خصوصی طور پر جمشید صاحب کا ذکر کرنا چاہونگا جنھوں نے سب سے پہلے اور بہت عرصہ قبل اردو مجلس پر میری اس غلطی کی نشاندہی کی تھی۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جمشید صاحب سمیت تقریبا تمام دیوبندی حضرات اپنے مذہب کا اندھا دھند اور ناجائز دفاع کرتے ہوئے کثرت سے جھوٹ بولتے اور مغالطہ انگیزی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اس عادت کے سبب اگر یہ لوگ غلطی یا اتفاق سے کبھی کسی معاملے میں سچ بھی بول رہے ہوں تو عام طور پر اس کا اعتبار نہیں کیا جاتا اور اسے جھوٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے میں نے بھی جمشید صاحب کی نشاندہی پر کوئی توجہ نہیں کی تھی۔ بہرحال جمشید صاحب آپکا بہت شکریہ۔

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔