دیوبندیوں کا دجال اعظم

  (تعارف)
 ویسے تو اس گمراہ اور بدعتی فرقہ میں بہت سے دجال گزرے ہیں لیکن اگر امین صفدر اوکاڑوی کو اس بدعتی ، وحدت الوجودی اور صوفی ٹولے کا دجال اعظم قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بہت ہی ڈھیٹ اور بے شرم قسم کا آدمی تھا جس نے جھوٹ ہی کو ساری زندگی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔فن مغالطہ کا امام تھا۔ دجل و فریب کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔زبان بھی انتہائی گندی اور لچر تھی جسکا ثبوت اس کے علمائے اہل حدیث سے وہ مناظرے ہیں جن میں اس نے دلائل دینے سے عاجز آکر گندی گندی گالیاں دی ہیں ۔نیٹ پر ویڈیو اور آڈیو کی صورت میں وہ مناظرے محفوظ ہیں۔و الحمد اللہ!

(علمی حیثیت ومقام)
ماسٹر امین اوکاڑوی باقاعدہ عالم نہیں تھا اور نہ ہی کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھا۔ بلکہ ایک اسکول میں استاد کے فرائض انجام دیتا تھا۔(تجلیات صفدر :جلد۱: صفحہ ۴۵ تا ۴۶) ۔
بہت بہتر تھا کہ یہ اسکول کے بچوں ہی کو پڑھاتا رہتا لیکن اس دجال کی بدبختی کہ اس نے یہ کام چھوڑ کر مذہبی میدان میں چھلانگ لگادی اور دیوبندی مذہب کے دفاع میں دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی آخرت برباد کر لی۔صحیح بات ہے جس کا کام اسی کو ساجھے، جب امین اوکاڑوی جیسے نیم ملا حضرات دینی مسائل میں تبع آزمائی کرنے لگیں تو قرآن اور حدیث میں تحریف،باطل تاویلات، اکازیب، دھوکہ دہی، فریب اورتناقضات کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آتا۔اور انہیں اوصاف سے اس دجال کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

(دینی خدمات)
دیوبندی مذہب کے تعصب میں قرآن او ر حدیث سے شدید بغض رکھتا تھا۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ اپنے مذہب کے دفاع میں اس نے قرآن کی جھوٹی آیتیں گھڑیں اور نبی ﷺ کی احادیث کا مذاق اڑایا اور نبی ﷺ پر تہمت لگانے سے بھی باز نہ آیا اسکی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

  ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : کتا سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (صحیح مسلم)۔
اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے دیوبندیوں کا دجال اعظم لکھتاہے: لیکن آپ ﷺ نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی ، اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرم گاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی۔ (غیر مقلدین کی غیر مستند نماز: صفحہ ۳۸)۔

 اوکاڑوی دجال رفع الیدین کے خلاف دلیل دیتے ہوئے لکھتاہے
 نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والوں اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب تم نماز پڑھو۔ اس آیت سے بھی بعض لوگوں نے نماز کے اندر رفع الیدین کے منع پر دلیل لی ہے۔ (تحقیق مسئلہ رفع الیدین : صفحہ ۶)۔


(انجام بد)
اس کی عبرت ناک موت ایک اہل حدیث عالم طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ سے مباہلہ کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ اس کی موت کی کیفیت بھی اس کے سیاہ کرتوتو ں کے عین مطابق تھی۔ جس طرح غلام احمد قادیانی حنفی منہ سے غلاظتیں نکالتا ہوا دنیا سے رخصت ہوا بالکل اسی طرح دیوبندیوں کا یہ دجال اعظم بھی ٹائلٹ میں فوت ہوا۔

طالب الرحمن شاہ اپنے ایک انٹرویو میں اس حقیقت سے ان الفاظ میں پردہ اٹھاتے ہیں

مناظرہ ایک ایسی چیز ہے جس سے حق و باطل کا پتہ چلتا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے بھی عیسائیوں سے مناظرہ کیاتھا۔ اور جب وہ مناظرے سے فرار ہوگئے تو مباہلہ تک بات پہنچی تھی اور وہ مباہلہ میں بھی نہیں آئے تھے۔ ہمارے ہاں بھی بعض جگہ مباہلہ کی نوبت آئی ہے اور امین اوکاڑوی صاحب سے جو ایک مرتبہ ملتان ڈسٹرکٹ میں آئے تھے مباہلہ ہوا اور چونکہ مباہلہ اس بات پر تھا کہ جو حق پر نہیں ہے اس کی موت آجائے اور وہ زلیل و خوار ہو کر مرے اور الحمداللہ میں آج بھی زندہ ہوں ۲۰۰۳ میں اور دو یا تین سال پہلے امین اوکاڑوی صاحب فوت ہوگئے ہیں اور ملتان کے ساتھیوں نے بتلایا کہ وہ ٹائلٹ میں فوت ہوئے اور انھیں موت بھی برے طریقے سے آئی ۔ یہ ایک مباہلے کا اثر اور نتیجہ تھا۔ (ہم اہلحدیث کیوں ہوئے؟ صفحہ ۶۲۰ تا ۶۲۱)۔

 




حنفی مذہب کے تین کذاب

حنفی مذہب کی عمارت تین متنازعہ اشخاص کے ناقص اقوال کی بنیاد پر قائم ودائم ہے۔یہ تین اشخاص ،ابوحنیفہ اور ان کے دو شاگرد رشید ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی ہیں۔شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں: جیسا کہ امام ابویوسف اور امام محمد کے مذاہب کو باہم پاتے ہیں کہ انکی تدوین امام ابوحنیفہ کے مذہب کی تدوین ہی میں ضم ہے۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 126)۔

ایک اور مقام پر شاہ ولی اللہ حنفی اس مسئلہ کی وضاحت میں رقمطراز ہیں: ان کے اندر کے سارے مسائل امام ابوحنیفہ کا مذہب کہے جانے لگے۔ اس طرح امام ابویوسف اور امام محمد کے مذاہب بھی امام ابوحنیفہ کے مذہب کے ساتھ مل گئے اور ان سب کو ایک ہی شمار کر لیا گیا۔ حالانکہ یہ دونوں حضرات بجائے خود مجتہد مطلق ہیں اور امام ابوحنیفہ سے انکے اختلافات کی فہرست کافی طویل ہے، نہ صرف فروع میں بلکہ اصول میں بھی۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 44)۔

ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ حنفیت اصل میں ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد بن حسن کے مختلف مذاہب، اقوال اور آراء کا مجموعہ ہے۔اس لئے حنفی مذہب کی عمارت انہی تین حضرات کے بیمار خیالات کی بنیادوں پر قائم ہے۔کسی بھی عمارت کی مضبوطی اور درستگی کو صحیح طور پر اس کی بنیاد ہی سے جانچا جاسکتا ہے ۔اگر بنیاد مضبوط اور درست ہو تو اس پر قائم ہونے والی عمارت بھی صحیح اور دیرپا ہوتی ہے ۔اسکے برعکس کمزور بنیادوں پر اٹھائی اور قائم کی جانے والی عمارت ناپائیدار اور متزلزل ہوتی ہے جس کے کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کے قوی امکانات موجود رہتے ہیں۔ حنفی مذہب کی عمارت اندر سے کس قدر کھوکھلی اور بے جان ہے۔آئیے! جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذہب حنفی کے ائمہ ثلاثہ یعنی ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد بن حسن المعروف امام محمد کے اقوال اسی صور ت میں قابل قبول اور لائق التفات ہوسکتے ہیں جب خود ان صاحبان کو امت نے بطور ثقہ،ایماندار اور سچوں کی حیثیت سے قبول کیا ہو۔اگر واقعہ اس کے خلاف ہو تو نہ تو ان حنفی اماموں کے اقوال کی کوئی حیثیت رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس مذہب کی جو ان اقوال کی بنیاد پر قائم ہے۔گھر کے بھیدی لنکا ڈھائیں کے مصداق حنفی مذہب کے یہ ائمہ ثلاثہ خود ایک دوسرے کے کردار کے بارے میں کیا گواہی دے رہے ہیں۔ دیکھئے:

امام ابویوسف جو امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو حنفی مذہب دیگر متروک مذاہب کی طرح دنیا سے معدوم ہوجاتا۔محمد بن الحسن الشیبانی المعروف امام محمد کے بارے میں کہتے ہیں: قولو الھذا الکذاب یعنی محمد بن الحسن۔ ھذا الذی یرویہ عنی سمعہ منی؟ اس کذاب یعنی محمد بن الحسن سے کہو۔ یہ جو مجھ سے روایتیں بیان کرتا ہے کیا اس نے سنی ہیں؟ (تاریخ بغداد 2/180و سندہ حسن)۔

ابویوسف کی اس گواہی سے معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ کا شاگرد محمد بن حسن (امام محمد) کذاب تھا۔یہ حنفی مذہب کی عمارت کا تیسرا ستون تھا جو ابویوسف کی اس گواہی کے بعد گر گیا۔اب حنفی مذہب کی عمارت دو بنیادوں پر باقی ہے ایک ابویوسف اور دوسرا خود ابوحنیفہ۔دیکھتے ہیں کہ ان دو ستونوں میں کتنا دم خم ہے۔

امام ابوحنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: انکم تکتبون فی کتابنا ما لا نقولہ تم ہماری کتاب میں وہ باتیں لکھتے ہو جو ہم نہیں کہتے۔(الجرح والتعدیل 9/201و سندہ صحیح)۔

ایک اور روایت میں امام ابوحنیفہ نے قاضی ابویوسف کے بارے میں کہا: الا تعجبون من یعقوب،یقول علی مالا اقول کیا تم یعقوب (ابویوسف) پر تعجب نہیں کرتے ؟! وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر/ الاوسط للبخاری 2 /,209 210)۔

ابوحنیفہ نے اپنے ہی شاگرد کے بارے میں جھوٹا اور کذاب ہونے کی گواہی دی اور اس گواہی کے ساتھ ہی حنفی مذہب کی عمارت کا دوسرا ستون بھی زمین بوس ہوگیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس عمارت کا آخری ستون کب تک اس گرتی ہوئی عمارت کا بوجھ اٹھا پاتا ہے۔

امام اہلسنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کے بارے میں فرمایا: کان ابوحنیفہ یکذب ابوحنیفہ جھوٹ بولتا تھا۔(تاریخ بغداد،جلد 13، صفحہ 418)۔

اس متفق علیہ امام کی معتبر گواہی سے پتا چلا کہ ابوحنیفہ بھی اپنے دونوں شاگردوں کی طرح کذاب تھا۔

مذکورہ بالا ناقابل تردید گواہیوں سے ثابت ہوا کہ ابوحنیفہ، ابویوسف اور امام محمد جیسے کذابین کے اقوال،آرا اور فتاویٰ بھی ردی ہیں اور ان جھوٹوں کے ردی اقوال وآراء پر قائم شدہ حنفی مذہب بھی مردود ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں کسی بھی ذی شعور انسان کے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جوحنفی مذہب ان کذاب اماموں کے اقوال اور فتوؤں کا مجموعہ ہے اسکی حقائق اور سچائی کی دنیا میں کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے! ایسے باطل اور قاتل ایمانی حنفی مذہب سے براء ت اور احتراز ہر مسلمان پر اگر وہ اخروی نجات چاہتا ہے ازحد ضروری ہے۔کیونکہ ایسے کذابین اماموں کے باطل مذہب کو وہی شخص قبول کرے گا جو خود کذاب اور دجال ہوگا۔