دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

اہل باطل ،اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے جن چیزوں کو بنیاد بناتے ہیں ان کی حقیقت کھلنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ اونچی دکان کے پھیکے پکوان سے زیادہ کچھ نہیں۔جواعتراضات بظاہر بہت بڑے اور قوی محسوس ہوتے ہیں انکی اصلیت سے پردہ ہٹنے کے بعدوہ اتنے ہی بے حقیقت، بے وقعت اور بے معنی نظر آتے ہیں۔اہل باطل کے اسی طرح کے ایک دھوکے کو ہم نے زیر نظر مضمون میں اللہ رب العالمین کی توفیق سے بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے۔ 

مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا: پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید مطلق کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں۔(اشاعۃ السنۃ،صفحہ 88، جلد 11) ۔

چونکہ مذکورہ عبارت عام مقلدین بالخصوص مسلک اہل حدیث سے تعصب اور بغض رکھنے والوں کے لئے نہایت پرکشش تھی اسی لئے اس مرغوب حوالے کو غالی مقلدین کی جانب سے تقلید کی اہمیت اور ترک تقلید کے نقصان میں بکثرت نقل کیا گیا ہے جیسے: 

۔01۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر،جلد اول کے صفحہ 615 پر
۔02۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی کی کتاب اختلاف امت صراط مستقیم کے صفحہ 30 پر
۔03۔ صوفی منقار شاہ دیوبندی کی کتاب وھابیوں کا مکر و فریب کے صفحہ 62 پر
۔04۔ ابو بلال جھنگوی کی کتاب تحفہ اہل حدیث کی ہر جلد کے آخری ٹائٹل پر
۔05۔ سیدفخر الدین احمد دیوبندی کی کتاب رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں کے صفحہ نمبر 5پر
۔06۔ صوفی محمد اقبال قریشی دیوبندی کی کتاب ھدیہ اھلحدیث کے صفحہ 239 پر
۔07۔ مولانا محمد شفیع دیوبندی کی کتاب مجالس حکیم الامت کے صفحہ 242 پر
۔08۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب الکلام المفیدفی اثابت التقلید کے صفحہ 183پر
۔09۔ محمد زید مظاہری ندوی دیوبندی کی کتاب اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ کے صفحہ 104 پر
۔10۔ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی کتاب سبیل السدادمیں

افسوسناک امر یہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام احباب نے من مانی کرتے ہوئے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت میں موجود لفظ’’ تقلید مطلق ‘‘سے تقلید شخصی کا من چاہا معنی مراد لیا ہے حالانکہ تقلید مطلق سے تقلید شخصی مراد لینے کی کوئی معقول وجہ یا قرینہ بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت میں سرے سے موجود نہیں۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی مولانا بٹالوی رحمہ اللہ کی تقلید مطلق سے متعلق عبارت کو نقل کرنے کے بعد بغیر کسی قرینے اور شاہد کے اس سے الٹا اور برعکس مطلب و نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہوگی کہ عامی آدمی کو ایک معین امام کی تقلید ہی کیوں ضروری ہے؟ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 31) ۔

تقلید مطلق کو اپنی مطلب برآوری کے لئے بلاوجہ تقلید شخصی بنا دینا یوسف لدھیانوی جیسے دیانت و امانت کے دشمن دیوبندیوں کا ہی کام ہے!!!جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا عام آدمی کے لئے توبرا اور قابل مذمت فعل ہے ہی لیکن جب یہی ناجائز اور برا فعل ایک عالم دین کہلاوانے والے شخص سے جان بوجھ کر سرزد ہو تو اسکی مذمت اور برائی شدید ترہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات ان تقلید کی بیماری میں مبتلا علما ئے سوء کو سمجھ میں آجائے تو یہ لوگ عوام الناس کو دغا دینے جیسے قبیح عمل سے تائیب کیوں نہ ہوجائیں؟!! 

چونکہ دھوکہ دہی، دغابازی، غلط بیانی، مغالعہ انگیزی اور کذب بیانی جیسے افعال تقلید کی گندی کوکھ میں ہی پرورش پاتے ہیں اس لئے تقلید اور ان مکارم اخلاق چیزوں کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص مقلد ہو اور وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لئے جھوٹ نہ بولے اور لوگوں کو مبتلائے دھوکہ نہ کرے۔ بہرحال محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت اپنے مفہوم پر واضح اور دو ٹوک ہے جس سے مقلدین کا اپنے مطلب کا خود ساختہ معنی و مفہوم مراد لینے کی اس کے علاوہ کوئی معلوم وجہ نہیں کہ حق و باطل کو خلط ملط کرکے اپنے جاں بلب مذہب میں کچھ جان پھونکی جائے۔ 

اس بحث کومزید بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تقلید کی اقسام اور انکی تعریف متعین و معلوم کر لی جائے۔تقلید کی دو اقسام ہیں جن میں ایک کوتقلید شخصی یا معین تقلید اور دوسری تقلید غیر شخصی یا تقلید مطلق کہا جاتا ہے۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تقلید کی ان اقسام کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: 

۔1۔ تقلید غیر شخصی (تقلید مطلق)۔

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد) بغیر کسی تعین وتخصیص کے غیر نبی کی بے دلیل بات کو آنکھیں بند کرکے، بے سوچے سمجھے مانتا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقلید مطلق کی اس تعریف کی تائید تقی عثمانی دیوبندی کی اس وضاحت سے بخوبی ہوتی ہے: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121) ۔

اپنی ایک اور تصنیف میں تقی عثمانی صاحب تقلید مطلق کی تعریف ایسے کرتے ہیں: پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو ’’تقلید مطلق‘‘ یا ’’تقلید عام‘‘ یا ’’تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

پس معلوم ہوا کہ متعین کئے بغیراپنی مرضی سے کسی بھی امتی کی تقلید کر لینا ہی تقلید مطلق ہے۔ 

۔2۔ تقلید شخصی

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد)تعین و تخصیص کے ساتھ، نبی ﷺ کے علاوہ کسی ایک شخص کی ہر بات (قول وفعل)کو آنکھیں بند کرکے،بے سوچے سمجھے اندھا دھند ماننا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقی عثمانی دیوبندی تقلید شخصی کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے ’’تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

ملا جیون حنفی لکھتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چار وں اماموں کی اتباع کی جائے گی۔(تفسیرات الاحمدی،صفحہ 566) ۔

اس عبارت میں تقلید کے لئے صرف چار اماموں کا تعین و تخصیص ہی تقلید شخصی کی مثال ہے۔یاد رہے کہ ان چاروں میں سے ایک وقت میں صرف ایک ہی کی تقلید آل تقلید کے ہاں ضروری اور واجب ہے ۔جیسے خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانے میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،صفحہ38) ۔

تقلید کی ہر دو اقسام کی تعریف کے تعین پر فریقین کے اتفاق سے یہ تفصیل سامنے آئی کہ ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید، تقلید شخصی ہے اور ائمہ اربعہ یا ان کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مخصوص امام کا تعین کئے بغیر بلادلیل جس سے جو چاہا مسئلہ لے لینا اور اس پر عمل کرنا تقلید مطلق ہے۔ 

مندر جہ بالا تفصیل سے تقلید شخصی اور تقلید مطلق کا فرق واضح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت ابوحنیفہ کی اندھی تقلید کے دعویداروں کے سراسر خلاف جاتی ہے کیونکہ ان مقلدین کے ہاں مطلق تقلید حرام اور موجب گمراہی جبکہ تقلید شخصی واجب ہے۔ اب مخالفین کے اپنے مستند علماء کی عبارات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو بٹالوی مرحوم کی عبارت کو اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ تقلید شخصی اور تقلید مطلق کو کیا حیثیت و اہمیت دیتے ہیں اور تقلید کی ان دو اقسام میں سے کون سی تقلید ان کے ہاں صحیح اور کونسی غلط بلکہ موسبب فتنہ و گمراہی ہے۔ 

۔1۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی تقلید شخصی کی ضرورت اور تقلید مطلق کے نقصان کی وضاحت میں رقم طراز ہیں: علماء نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر عامی آدمی کو اس کی اجازت دی جائے کہ اس کو اختیار ہے کہ کسی امام کے مذہب کو لے کر وہ اس پر عمل کر لے تو اس صورت میں رخصت اور آسانی تلاش کرے گا ۔اس کا دل چاہے گا تو ایک چیز کو حلال کہے گا اور کبھی خیال بدل گیا تو وہ اسی کو حرام کہے گا کیونکہ ائمہ اربعہ میں بعض احکام میں حلت و حرمت کا اختلاف ہے۔(تجلیات صفدر، جلد اول، صفحہ 655) ۔

پس امین اوکاڑوی دیوبندی کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ مقلدین کے ہاں تقلید مطلق سراسر گمراہی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی آل تقلید کی ستم ظریفی اوردھوکہ دہی ملاحظہ فرمائیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کی جو عبارت براہ راست خود ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھی اسی عبارت کو کس دیدہ دلیری سے انہوں نے اپنے مخالفین یعنی تقلید نہ کرنے والوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ 

۔2۔ اشرف علی تھانوی کے اس کلام میں بھی تقلید مطلق کے باعث فساد ہونے کا واضح اشارہ موجودہے: تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 78) ۔

۔3۔ تقی عثمانی دیوبندی عوام الناس کو مطلق تقلید سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں: صرف ایک امام کی تقلید لازم و ضروری بلکہ واجب ہے،کبھی کسی کی اور کبھی کسی اور کی تقلید کی تو گمراہ ہوجائے گا اور دین کھلونا بن جائے گا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 120) ۔

۔4۔ نور محمد قادری تونسوی دیوبندی تقلید مطلق کودین و مذہب کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: کوئی مسئلہ کسی امام کا اور کوئی کسی کا ،لے کر چلنابھی درحقیقت امام کی اتباع کے نام پر اتباع خواہش ہے جو آدمی کے دین اور ایمان کے لئے خطرے کا سنگ میل ہے۔(سہ ماہی قافلہ حق،شمارہ نمبر7، صفحہ 9)۔

۔5۔ تقی عثمانی صاحب ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا آخر اس میں قباحتوں نے جنم لینا شروع کیا یا اس کا خدشہ تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)۔

درج بالا حوالے میں وہ کون لوگ ہیں جو ابتداء میں تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں: مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43) ۔

بقول مقلدین تقلید مطلق پہلے جائز تھی ا س لئے کے اس میں خیر تھی کیونکہ ان کے خیال سے صحابہ تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے لیکن اب اس میں سوائے شر کے اور کچھ نہیں ۔مطلب یہ کہ موجودہ زمانے میں تقلید شخصی چھوڑ کر تقلید مطلق اختیار کر لینا یقینی گمراہی کا سبب ہے۔ 

مندرجہ بالا دلائل سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ دیوبندیوں نے صرف شعبدہ بازی سے کام لے کر تقلید مطلق سے تقلید شخصی کشید کرنے کی ناکام کوشش کی ہے وگرنہ پیش کردہ اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت سے اظہر من الشمس ہے کہ تقلید مطلق کو ترک کرنے والا بالآخر گمراہ ہوجاتا ہے اس کے برخلاف و برعکس آل تقلید کے نزدیک تقلید مطلق کو اختیار کرنے والاگمراہ ہوجاتا ہے۔اس زبردست تضاد واختلاف کے باوجود بھی مقلدین کا ایک ایسی عبارت کو جو ان کے تقلید ی نظریہ کے خلاف ہے، سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے حق میں استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ دیانت و امانت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس بات سے بھی بالکل بے خوف ہیں کہ انکی کھلی دغابازی کا پول کھلنے پر انہیں شرمندگی اور ندامت بھی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔یہ حضرات شاید اہل حق کو بھی تقلیدی بیماری کے شکار لوگوں کی طرح اندھا اور بہرا جاننے کی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

اسی طرح جہاں تک اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی مرحوم کی( مقلدین کی جانب سے نقل کر کے اہل حدیث ہی کے خلاف پیش کی جانے والی) عبارت میں مجتہد مطلق کے تارک بننے کو ناپسندیدہ اور گمراہی کا سبب بتایا گیا ہے تو یہ بات بھی آل تقلید کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خود ساختہ مذہب کے خلاف ہے کیونکہ انکے ہاں مطلق مجتہد کے بجائے مخصوص اور متعین مجتہدین سے چمٹے رہنا اور انکی اندھی تقلید کرتے رہنا ہی واجب ہے جنھیں ائمہ اربعہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ۔ احناف کی انتہائی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں مندرج ہے: عوام الناس بحث اور تحقیق نہیں کرسکتے تو ان پر چار اماموں کی تقلید لازمی ہے جو تحقیق کر چکے ہیں۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

صاوی نے سورہ کہف کی تفسیر میں لکھا ہے: چار مذاہب کے علاوہ کسی کی تقلیدجائز نہیں۔ 

مقلدین نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے صرف ائمہ اربعہ کی تقلیدکے واجب ہونے پر اجماع کا خود ساختہ دعویٰ بھی کردیا ہے۔چناچہ ملاجیون حنفی نے لکھا ہے: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چاروں اماموں کی اتباع کی جائے۔(تفسیرات الاحمدی، صفحہ 566) ۔

قارئین سے عرض ہے کہ زرا ایک مرتبہ پھر آغازمضمون میں نقل کی گئی بٹالوی مرحوم کی عبارت کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کے نزدیک تو مطلق مجتہد سے تعلق توڑنے والا بالآخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتا ہے جبکہ آل تقلید کے ہاں مطلق مجتہد سے تعلق جوڑنے والا گمراہی کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلق مجتہد کی تقلید اختیار کرنا اجماع کی مخالفت اور واجب کا انکارہے۔تقلید ی حضرات اپنے خود ساختہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور کو تو دور کی بات کسی صحابی کو بھی واجب الاتباع و تقلید ماننے کو تیار نہیں۔ 

مسلم الثبوت میں لکھا ہے: محققین کا اس پر اجماع ہے کہ عامتہ المسلمین صحابہ کرام کی تقلید اور اتباع نہیں کرینگے کیونکہ بسا اوقات ان کے اقوال واضح نہیں ہوتے۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

احناف کے اس اصول میں مجتہدین اربعہ سے کروڑہا درجے بہتر اور علم وفضل، نیکی وتقوی اور قر آن و حدیث کی معرفت اور فقاہت میں افضل ترین مجتہد صحابہ کرام کی واضح تنقیض اور توہین پائی جاتی ہے اور اس پر متزاد انکے بزرگان دین کے ادب و احترام کے کھوکھلے بلند و بانگ دعوے!!! احناف کے ان مسلمہ اصولوں کے بعد انہیں بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت کو اہل حدیث کے خلاف پیش کرتے ہوئے ہزار بار شرمانا چاہیے تھاکیونکہ مذکورہ عبارت خود احناف ہی کے خلاف ہے۔ لیکن آہ!شرم تم کو مگر نہیں آتی 

محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت کے دیگر جوابات کے لئے تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث از محمد داود ارشد اور صراط مستقیم اور اختلاف امت بجواب اختلاف امت صراط مستقیم از مولانا صغیر احمد بہاری رحمہ اللہ کی مراجعت فرمائیں۔

اجارہ داری

ایک وقت تھا جب اہل سنت والجماعت کے لفظ پر بریلویوں کی اجارہ داری تھی۔ یہ اجارہ داری انہیں ایک طویل پروپیگنڈے سے حاصل ہوئی تھی جسکا ایک بہت بڑا فائدہ انہیں یہ حاصل تھا کہ کسی بھی کتاب سے اہل سنت کا لفظ دکھا کر اپنی عوام کو باآسانی یہ تسلی دے لیتے تھے کہ کتاب میں یہ بات یا بشارت بریلویوں کے حق میں ہے کیونکہ صرف بریلوی ہی بلا شرکت غیرے اہل سنت والجماعت ہیں۔ 

بریلویوں کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سلف صالحین نے صرف اہل حدیث ہی کو اہل سنت والجماعت کہا ہے۔لیکن ایک تو اہل حدیث حضرات نے اس بریلوی پروپیگنڈہ کا بھرپور مقابلہ بھی نہیں کیا اور دوسرا ان کی تعدادبھی بریلویوں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہونے کی وجہ سے کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ بریلویوں کی اس اجارہ داری پر کاری ضرب اس وقت لگی جب دیوبندیوں نے بھی خود کو اہل سنت والجماعت کہنا اور لکھنا شروع کیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ، میں نے خود سنی تحریک کے سربراہ کو سپاہ صحابہ کے ذمہ دار سے یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا کہ جب یہ بات مشہور و معروف ہے کہ صرف بریلوی ہی خود کو اہل سنت والجماعت کہلواتے ہیں تو دیوبندیوں کو خود کو اہل سنت والجماعت کہلوانے اور اپنی جماعت کے ساتھ اس لفظ کو لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس پر دیوبندی عالم کے بجائے اینکر نے جواب دیا کہ اہل سنت والجماعت کا لفظ کسی خاص جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے بریلویوں کا یہ شکوہ بھی درست نہیں۔ 

اب صورت حال یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے لفظ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں دیوبندی اور بریلوی دونوں آتے ہیں۔ اب بریلویوں کو کسی کتاب میں موجود اہل سنت والجماعت سے متعلق بشارت کو اپنے اوپر فٹ کرنے سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ دیوبندی جو خود کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں ان کی نسبت اہل سنت والجماعت سے درست نہیں۔ اہل سنت والجماعت کے لفظ پر دیوبندیوں نے بریلویوں کے لئے مقابلہ کی فضا پید ا کردی ہے جو کہ ان کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ 

اس طویل گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی خاص جماعت کا کسی خاص لفظ یا اصطلاح پر اجارہ داری کا ان کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ اور وہ جماعت بلا مقابلہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے اس کی مخالف جماعت بھی اسی لفظ سے نسبت کا دعوی ٰ کرکے اس کے لئے عظیم مشکلات کھڑی کر کے اس کے فوائد کو ختم کردے۔ جیسے ایک دیوبندی عالم عبدالجبار سلفی صاحب نے ایک کتاب لکھی جسکا عنوان ہے : سلفی کون؟ حنفی یا غیر مقلد ۔اس کتاب میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سلفی کا مطلب ہے سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والا اور اس لفظ کے صحیح حقدار حنفی ہیں ناکہ غیر مقلد جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ تو کسی کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے دین میں اپنی مرضی چلاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیوبندی و بریلوی حضرات بھی خود کو اہل حدیث، سلفی، اثری اور محمدی وغیرہ کہلاوانا شروع کردیں۔ 

کسی خاص اصطلاح یا نام سے کسی جماعت کو کتنا فائدہ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب حنفیوں نے اہل حدیث سے متعلق سلف صالحین کی بشارتیں اور گواہیاں پڑھیں توانہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ اہل حدیث لفظ سے اہل حدیث کا رشتہ کاٹ کر عوام کو دھوکہ دیا جائے اس ناپاک مقصد کے لئے پہلے انھوں نے اہل حدیث کے لئے غیرمقلد کا لفظ مشہور کیا اور اہل حدیث لفظ میں یہ تاویل کی کہ اہل حدیث سے مراد محدثین ہیں آج کل کے نام نہاد اہل حدیث جو کہ اصل میں غیر مقلد ہیں اس سے مراد نہیں۔اس تاویل سے یہ لوگ عام طور پر عوام الناس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اب یہ اہل حدیث کی ذمہ داری ہے کہ حنفیوں کے اس باطل پروپیگنڈے سے مقابلے کے لئے وہ باربار اپنی تقریروں اور تحریروں میں لوگوں کو یہ بتائیں کہ غیر مقلد کا لفظ حنفیوں کا ایجاد کردہ ہے اور ہم غیر مقلد نہیں بلکہ اہل حدیث ہیں۔ 

کسی لفظ پر اجارہ داری کی اس اہمیت کے پیش نظر حنفیوں کے ایک لفظ پر اجارہ داری کا جائزہ لیتے ہیں جو وہ اپنے امام کے لئے مخصوص کر کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی اس لئے بھی تقلید کرنی چاہیے کہ وہ سب سے بڑے امام یعنی امام اعظم ہیں۔ یعنی کوئی بھی دلیل پیش کئے بغیر وہ صرف امام اعظم کا لاحقہ ابوحنیفہ کے نام کے ساتھ لگا کر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ علم، تقوی اور فضیلت میں ابوحنیفہ سے بڑھکر کوئی نہیں۔ 
اس کو کہتے ہیں ۔ہلدی لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا 

اب سے کچھ عرصے پہلے تک میں خود اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) کے مقلدین بھی ابوحنیفہ کے امام اعظم ہونے پر متفق ہیں۔ 

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ امام اعظم کا لفظ صرف امام ابوحنیفہ کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے دعوے دار دوسرے لوگ بھی ہیں۔ اب حنفیوں کو یہ فیصلہ کرکے بتانا پڑے گا کہ ان میں سے اصلی اور حقیقی امام اعظم کون ہے۔ اس کے لئے حنفیوں کو دلائل بھی دینے پڑینگے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب دلائل کی باری آئے گی تو چاروں اماموں میں ابوحنیفہ کا نمبر سب سے آخر میں آئے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ نمبر بھی نہ آئے بلکہ اماموں کی لسٹ سے ہی خروج ہو جائے۔ 

حنفیوں کی طرح شافعی حضرات بھی اپنے امام کو امام اعظم کہتے ہیں: ۔

 تاج الدین عبدالوہاب بن تقی الدین السبکی نے کہا: محمد بن الشافعی: امامنا، الامام الاعظم المطلبی ابی عبداللہ محمد بن ادریس۔۔۔۔۔۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ج۱ ص۲۲۵، دوسرا نسخہ ج۱ ص۳۰۳) ۔

 احمد محمد بن سلامہ القلیوبی (متوفی ۱۰۶۹ھ) نے کہا: قولہ (الشافعی) : ھو الامام الاعظم
(حاشیۃ القلیوبی علیٰ شرح جلال الدین المحلی علیٰ منہاج الطالبین ج۱ ص۱۰، الشاملۃ) 

قسطلانی (شافعی) نے امام مالک کو الامام الاعظم کہا۔
(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج۵ ص۳۰۷ ح ۳۳۰۰، ج۱۰ ص۱۰۷ ح ۶۹۶۲) 

 قسطلانی نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں کہا: الامام الاعظم 
(ارشاد الساری ج۵ ص۳۵ ح ۵۱۰۵) 

 حافظ ابن حجر عسقلانی نے مسلمانوں کے خلیفہ (امام) کو الامام الاعظم کہا۔
(فتح الباری ۳/۱۱۲ ح ۷۱۳۸) 

اب دیکھتے ہیں کہ حنفی امام ابوحنیفہ کی طرف الامام الاعظم کی نسبت سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں یا دلائل کا مشکل ترین راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتے ہے کیا



جس کا ذکر نہ تھا سارے فسانے میں

مشہور اخبار اہلحدیث امرستر کا وہ اسکین شدہ صفحہ پیش خدمت ہے جسے بریلویوں اور دیوبندیوں کی طرف سے پیش کرکے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ غیر مقلد وہابی فرقے کو اہل حدیث کا نام انگریز کی طرف سے الاٹ ہواتھا۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ مذکورہ اخبار میں سرے سے ایسی کوئی عبارت یا بات ہی موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ اہل حدیث نام انگریز کا عنایت کردہ ہے۔جبکہ اسے برعکس اس اسکین شدہ دستاویز میں بریلویوں اور دیوبندیوں کے اس جھوٹے دعویٰ کی تردید ضرور موجود ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ دونوں باطل فرقے جس دیدہ دلیری اور بے شرمی سے اس دستاویز پر اپنی من پسند ہیڈنگ لگا کر اپنوں اور غیروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ 
رد کو جنوں کردیا جنوں کو خرد 
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

مذکورہ دستاویز کوصحیح طور پر سمجھنے کے لئے اس کا پس منظر اور اس وقت کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے جو مختصراً کچھ یوں ہیں کہ انگریز بلاد عرب میں محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے ہاتھوں برپا ہونے والی خالص توحیدی دعوت سے انتہائی خوفزدہ تھا اور اسے ڈر تھا کہ اگر اسطرح کی کوئی تحریک برصغیر میں شروع ہوئی تو اس کے اقتدار کو سنگین خطرات لاحق ہو جائیں گے ۔ انگریز یہ بھی جانتا تھا کہ اہل حدیث کے علاوہ کسی فرقے میں یہ صلاحیت نہیں کہ برصغیر میں اس طرح کی کسی تحریک کا بار برداشت کر سکے یا محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی طرز پراسی طرح کی کوئی خالص توحیدی تحریک برپا کر سکے۔اسی حقیقت کو بھانپتے ہوئے انگریز نے اہل حدیث کو بدنام کرنے کے لئے اپنے وفادرار بریلویوں کی خدمات حاصل کیں جنھوں نے تو حید کی قدر مشترک ہونے کی وجہ سے اہل حدیث کو محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا مقلد قرار دیا۔ اس کے علاوہ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے متعلق انکے مخالفین کی طرف سے لگائے جانے والے بے بنیاد الزامات مثلاً یہ اپنی جماعت کے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر اور واجب القتل سمجھتے ہیں ا ور نبی ﷺ کی شان گھٹا کر شدید گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات کو بنیاد بنا کر اور ان الزامات کو اہل حدیث پر چسپاں کرکے وہابی ، وہابی کا اس قدر شور مچایا کہ مخالف جماعتوں کے عام وخاص لوگ اہل حدیث کا نام تک بھول گئے اور یاد رہا تو صرف ایک نام یعنی وہابی بمعنیٰ محمد بن عبدالوہاب کے مقلد۔ 


مولانامسعود عالم ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
سب سے بڑی غلط بیانی شیخ الاسلام کی دعوت کے متعلق یہ کی گئی کہ اسے وہابیت کا نام دیا گیا۔ اس طرح ارباب غرض نے یہ بارور کرانا چاہا کہ یہ اسلام سے الگ کوئی دین ہے۔ انگریزوں، ترکوں اور مصریوں نے مل کر اسے ایسا ہوا بنایا کہ اسلامی دنیا میں پچھلی دو صدیوں میں جتنی تحریکیں پیدا ہوئیں اور یورپی طاقتوں نے ان سے کوئی خطرہ محسوس کیا، جھٹ اس کا ڈانڈا نجد کی وہابیت سے ملا دیا............ہندوستان کی تحریک تجدید و امارت تو نجد سے اس طرح وابستہ کی گئی ہے، غیر تو غیر اپنے بھی دونوں کو ایک خیال کرنے لگے ہیں۔(محمد بن عبدالوہاب، ایک مظلوم اور بدنام مصلح ص۹۸)۔

اس زمانے میں وہابی کا لفظ غدار اور باغی کا ہم معنی قرار پایا حتیٰ کہ اگر کوئی شخص کسی کے بارے میں جھوٹی گواہی دے کر اسے وہابی کہہ دیتا تو حکومت کی جانب سے اسے گرفتار کر کے مختلف ازیتوں کا نشانہ بنایا جاتا۔ انہیں مصائب اور خطرناک حالات کے پیش نظرعلمائے اہل حدیث نے شدت سے اپنی تحریروں اور تقریروں سے وہابیت سے براء ت کا اظہار کیا اور بتایا کہ ہم وہابی نہیں بلکہ اہل حدیث ہیں۔ اہلحدیث امرتسر اخبار میں موجود دستاویز بھی اسی جدوجہد کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں ایک اہل حدیث عالم مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی مرحوم نے حکومت کو درخواست دی اور مطالبہ کیا کہ ہمیں وبابی کہہ کر مخاطب نہ کیا جائے بلکہ ہمار ا جو اصلی نام ہے یعنی اہل حدیث ہمیں ہمارے اسی اصلی نام سے پکارا جائے۔ اصل عبارت دیکھیں
ہمارے فرقے کا نام اہلحدیث ہے ۔ وہابی ہمیں نہ لکھا جائے( اہلحدیث امرتسر اخبار ،صفحہ ۸)۔

چونکہ حکومت کی طرف سے سرکاری طور پر بھی اہل حدیث کو وہابی لکھا جاتا تھا ۔ اسلئے صرف اسی بات کی حکومت کو بٹالوی مرحوم کی طرف سے درخواست دی گئی کہ ہمیں ہمارے اصلی نام اہل حدیث ہی سے مخاطب کیا جائے۔ بریلوی اور دیوبندی اس عبارت کو جس طرح کے عنوانات دیتے ہیں یعنی وہابی اور موجودہ نام نہاد اہل حدیث جماعت کی حکومت سے درخواست کہ ہمارا نام وہابی سے بد ل کر اہل حدیث رکھ دیا جائے۔ اصل عبارت آپکے سامنے ہے ۔ میر ا سوال ہے کہ کیا ان باطل فرقوں کا مندرجہ بالا عنوان اصل عبارت سے ثابت ہوتا ہے؟؟؟!!! ہرگز، ہرگز نہیں۔

بٹالوی مرحوم کی اس درخواست کا جو جواب حکومت کی طرف سے آیا اس کی عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں
آپ کے خط کے جواب میں جس کا نمبر ۱۰۴۴ ہے ۔جمعہ ،جون کو ارسال کیا گیاتھا۔ مجھے حکم صادر ہوا ہے کہ میں آپ کو مطلع کروں کہ گورنر جنرل نے معہ کونسل اس بات کو باعث مسرت خیال کیا ہے کہ وہ سر ۔سی ۔ایچی سن (لاٹ صاحب صوبہ پنجاب) کے خیالات سے موافقت رکھتے اور اس بات میں متفق ہیں کہ لفظ وہابی کا استعمال آئندہ سرکاری خط وکتابت میں ممنوع قرار دیا جائے۔( اہلحدیث امرتسر اخبار ،صفحہ ۸)۔

یہ ہے حکومت کی طرف سے محمد حسین بٹالوی کی درخواست کا جواب ۔ اس جواب میں کافی تلاش و بیسار کے باوجود بھی مجھے بریلویوں اور دیوبندیوں کے باطل دعویٰ کا کوئی سراغ نہیں ملا کہ انگریز حکومت نے اس میں اعلان کیا ہو کہ آج سے آپ کے فرقے کواہل حدیث کا نام الاٹ کیا جارہا ہے۔ نام نہاد حنفی بریلوی اور دیوبندی حضرات سے گزارش ہے اس دستاویز سے جسے آپ پیش کرکے دعویٰ کرتے ہیں کہ اہل حدیث انگریز کے دور میں پیدا ہونے والا فرقہ ہے جس کو اہل حدیث کا نام بھی انگریز حکومت کی جانب سے الاٹ کیا گیا تھا۔وہ الفاظ دکھادیں جس کی بنیاد پر آپکا یہ دعویٰ قائم ہے۔ 

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکلا

محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے بھی اس حقیقت کی اس طرح وضاحت کی ہے: یہ لفظ اہل حدیث کی تصدیق نہ تھی بلکہ لفظ وہابیت سے بریت کے لئے تھی۔حکومت کی اس غلطی کو رفع کرنا اخلاقی فرض تھا جو مولانا بٹالوی نے انجام دیا ورنہ لفظ اہل حدیث تو پہلے ہی موجود تھاجو غلطی رفع ہونے کے بعد بھی باقی رہا۔(مسلک اہلحدیث اور تحریکات جدیدہ از مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ صفحہ ۲۵) ۔ 

اس عبارت اور اس سے پہلے والی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے حکومت سے اپنی جماعت کا نام رکھنے کی درخواست نہیں کی تھی بلکہ صرف اتنی درخواست تھی کہ ہماری جماعت کو سرکاری خط و کتابت میں وہابی کے بجائے اس کے اصلی نام (اہل حدیث) سے مخاطب کیاجائے۔

یاد رہے کہ انگلش حکومت کو دی گئی درخواست مولانا حسین بٹالوی رحمہ اللہ کا انفرادی عمل تھا۔ اس لئے ایک تنہا فرد کی انفرادی کاروائی کی بنیاد پر پوری جماعت اہل حدیث پر الزام لگانا کہ پوری جماعت انگریز سے درخواست گزار ہوگئی تھی کہ اسے وہابی نہیں اہل حدیث کہا جائے، غلط ہے۔ اس کا ثبوت ملاحظہ فرمائیں: ۔
اہلحدیث امرتسر اخباروالوں نے شکریہ کے عنوان کے تحت لکھا: اس قومی خدمت کے عوض ہم درخواست کرتے ہیں کہ ناظرین مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کریں۔( اہلحدیث امرتسر اخبار ،صفحہ ۸)۔

مذکورہ عبات اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ ایک اہل حدیث عالم کا انفرادی عمل تھا۔ اس لئے اس عمل کو پوری جماعت کی طرف منسوب کردینا مردود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ کوشش جماعت کی طرف سے نہیں تھی بلکہ یہ مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی کی کوشش تھی جو انبالہ کیس اور پٹنہ کیس کے تاثرات سے ہیبت زدہ ہو رہے تھے۔(مسلک اہلحدیث اور تحریکات جدیدہ از مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ صفحہ ۲۵) ۔ 

محمد حسین بٹالوی کے علاوہ دیگر علمائے اہل حدیث نے حکومت سے اس طرح کی درخواست گزاری کی ضرورت اس لئے محسوس نہیں کی کہ یہ بے سود عمل تھا۔ اور ویسے بھی اہل حدیث کو انکے مخالفین ہر دور میں غلط اور نا پسندیدہ ناموں سے پکارتے رہے ہیں جیساکہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ نے بدعتیوں کی نشانیا ں بتاتے ہوئے فرمایا ہے: اہل بدعت کی بکثرت نشانیاں ہیں جن سے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو برا کہتے ہیں اور ان کو حشویہ جماعت کا نام دیتے ہیں، اہل حدیث کو فرقہ حشویہ قرار دینا زندیق کی علامت ہے۔ اس سے ان کا مقصد ابطال حدیث ہے۔ فرقہ قدریہ کی علامت یہ ہے کہ وہ اہل حدیث کو جبریہ کہتے ہیں۔ اہل حدیث کو مشتبہ قرار دینا فرقہ جہمیہ کی علامت ہے۔ اہل حدیث کو ناصبی کہنا رافضی کی علامت ہے ۔ یہ تمام باتیں اہل سنت کے ساتھ ان کے تعصب اور ان کے غیظ و غضب کے باعث ہیں، حالانکہ ان کا تو صرف ایک نام اہل حدیث ہے۔ بدعتی ان کو جو لقب دیتے ہیں وہ ان کو چمٹ نہیں جاتے۔(غنیۃ الطالبین ص۱۹۱ طبع ، پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)۔

مولانا اسماعیل سلفی نے اس عمل کو بٹالوی صاحب کی اجتہادی غلطی قرار دیا ہے۔ دیکھئے: مولانا بٹالوی کی یہ کوشش المجتہد یخطی ویصیب کے اصول پر سمجھنی چاہیے۔(مسلک اہلحدیث اور تحریکات جدیدہ از مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ صفحہ ۲۵) ۔ 

والحمد اللہ ۔ مخالفین کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویز کی عبارات اور دیگر دلائل سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث نہ تو انگریز کے دور میں پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی ان کا نام انگریز کا الاٹ کردہ ہے۔



امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم


(تصویر کا ایک رخ)
حنفی مقلدین حضرات اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ میری معلومات کی حد تک آج تک کوئی مقلد صحیح سند کے ساتھ ابوحنیفہ کی علمیت کو ثابت نہیں کر پایا اور صرف خالی باتوں سے ابوحنیفہ کو سب سے بڑا مجتہد اور سب سے بڑا فقہی ثابت کر نا چاہتا ہے۔ کیا محض باتوں سے بھی کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟؟؟


(تصویر کا دوسرارخ)
 یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جسے ہم اکثر بیشتر دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ احناف کی معتبر کتابوں سے دکھانا چاہتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں

احناف کی انتہائی معتبر کتاب قدوری میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اسکے برعکس اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

(اندھی تقلید)
 اب بجائے اسکے کہ حنفی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے کہ ہمارے امام سے غلطی ہوگئی ہے۔ الٹا اپنے امام کے اس خلاف قرآن فتوے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔

استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟
صاحب ہدایہ نے قرآن کی آیت جس میں حمل اور رضاعت کی مدت کو جمع کرکے ڈھائی سال بیان کیا گیاہے۔ اس آیت کو ابوحنیفہ کی دلیل بتایا ہے اور اپنے امام کے ناجائز دفاع میں لغت کا سہارا لے کر حمل سے مراد بچے کو گود میں اٹھانا بتایا ہے۔ صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ابوحنیفہ کی اندھی تقلید میں یہ بھول گئے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جاتی ہے لغت سے نہیں۔ حدیث کو چھوڑ کر لغت کا استعمال تو منکر حدیث کرتے ہیں۔


(تین فیصلہ کن صورتیں)
 اس بحث کا نتیجہ تین صورتوں میں نکلتا ہے جس میں سے کسی ایک صورت کو ماننا لازمی و ناگزیر ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابوحنیفہ نے پورا قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اگر انہوں نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو انکی نظر سے یقیناًقرآن کا وہ مقام ضرور گزار ہوتا جہاں اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابوحنیفہ نے پورا قرآن پڑھا تھا۔ تو مقلدین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورا قرآن پڑھنے کے باوجود بھی ابوحنیفہ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فتوی دیا۔

تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں ابو حنیفہ سے منسوب یہ فتوی فقہ حنفی تحریر کرنے والوں کا جھوٹ ہے جو انہوں نے ابوحنیفہ کے ذمہ لگا دیا ہے۔

(فیصلہ آپ کے ہاتھ)
 پہلی صورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں مقلدین کے پاس امام ابوحنیفہ کی تقلید کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ جس شخص نے قرآن بھی پورا نہ پڑھا ہو ،وہ امامت کا حق دار کیسے ہو سکتاہے؟

اگرحنفی مقلدین دوسری صورت کو قبول کرلیتے ہیں تو اپنے امام کی مخالفت قرآن کا کیا جواب دینگے؟ اوراس کے بعد کیا وہ اس قابل رہیں گے کہ دوسروں کو انکی تقلید کی دعوت دے سکیں؟

مقلدین کی طرف سے آخری صورت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقہ حنفی جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہے۔ جس سے براءت واجب ہے۔

اب مقلدین حضرات بتا دیں کہ ان کو مذکورہ تین صورتوں میں سے کون سی صورت قبول ہے۔ اور اگر مقلدین حضرات کے نزدیک ان تین صورتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے تو برائے مہربانی مجھے آگاہ کردیں۔ مقلدین کی طرف سے جواب کا منتظر رہونگا۔



دیوبندیوں کا دجال اعظم

  (تعارف)
 ویسے تو اس گمراہ اور بدعتی فرقہ میں بہت سے دجال گزرے ہیں لیکن اگر امین صفدر اوکاڑوی کو اس بدعتی ، وحدت الوجودی اور صوفی ٹولے کا دجال اعظم قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔بہت ہی ڈھیٹ اور بے شرم قسم کا آدمی تھا جس نے جھوٹ ہی کو ساری زندگی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔فن مغالطہ کا امام تھا۔ دجل و فریب کے ذریعے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کر دکھانے میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔زبان بھی انتہائی گندی اور لچر تھی جسکا ثبوت اس کے علمائے اہل حدیث سے وہ مناظرے ہیں جن میں اس نے دلائل دینے سے عاجز آکر گندی گندی گالیاں دی ہیں ۔نیٹ پر ویڈیو اور آڈیو کی صورت میں وہ مناظرے محفوظ ہیں۔و الحمد اللہ!

(علمی حیثیت ومقام)
ماسٹر امین اوکاڑوی باقاعدہ عالم نہیں تھا اور نہ ہی کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل تھا۔ بلکہ ایک اسکول میں استاد کے فرائض انجام دیتا تھا۔(تجلیات صفدر :جلد۱: صفحہ ۴۵ تا ۴۶) ۔
بہت بہتر تھا کہ یہ اسکول کے بچوں ہی کو پڑھاتا رہتا لیکن اس دجال کی بدبختی کہ اس نے یہ کام چھوڑ کر مذہبی میدان میں چھلانگ لگادی اور دیوبندی مذہب کے دفاع میں دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی کوشش میں اپنی آخرت برباد کر لی۔صحیح بات ہے جس کا کام اسی کو ساجھے، جب امین اوکاڑوی جیسے نیم ملا حضرات دینی مسائل میں تبع آزمائی کرنے لگیں تو قرآن اور حدیث میں تحریف،باطل تاویلات، اکازیب، دھوکہ دہی، فریب اورتناقضات کے علاوہ کچھ سامنے نہیں آتا۔اور انہیں اوصاف سے اس دجال کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

(دینی خدمات)
دیوبندی مذہب کے تعصب میں قرآن او ر حدیث سے شدید بغض رکھتا تھا۔ اسکا ثبوت یہ ہے کہ اپنے مذہب کے دفاع میں اس نے قرآن کی جھوٹی آیتیں گھڑیں اور نبی ﷺ کی احادیث کا مذاق اڑایا اور نبی ﷺ پر تہمت لگانے سے بھی باز نہ آیا اسکی دو مثالیں پیش خدمت ہیں۔

  ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ : کتا سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ (صحیح مسلم)۔
اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے دیوبندیوں کا دجال اعظم لکھتاہے: لیکن آپ ﷺ نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی ، اور ساتھ گدھی بھی تھی، دونوں کی شرم گاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی۔ (غیر مقلدین کی غیر مستند نماز: صفحہ ۳۸)۔

 اوکاڑوی دجال رفع الیدین کے خلاف دلیل دیتے ہوئے لکھتاہے
 نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے ایمان والوں اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھو جب تم نماز پڑھو۔ اس آیت سے بھی بعض لوگوں نے نماز کے اندر رفع الیدین کے منع پر دلیل لی ہے۔ (تحقیق مسئلہ رفع الیدین : صفحہ ۶)۔


(انجام بد)
اس کی عبرت ناک موت ایک اہل حدیث عالم طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ سے مباہلہ کے نتیجے میں واقع ہوئی۔ اس کی موت کی کیفیت بھی اس کے سیاہ کرتوتو ں کے عین مطابق تھی۔ جس طرح غلام احمد قادیانی حنفی منہ سے غلاظتیں نکالتا ہوا دنیا سے رخصت ہوا بالکل اسی طرح دیوبندیوں کا یہ دجال اعظم بھی ٹائلٹ میں فوت ہوا۔

طالب الرحمن شاہ اپنے ایک انٹرویو میں اس حقیقت سے ان الفاظ میں پردہ اٹھاتے ہیں

مناظرہ ایک ایسی چیز ہے جس سے حق و باطل کا پتہ چلتا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے بھی عیسائیوں سے مناظرہ کیاتھا۔ اور جب وہ مناظرے سے فرار ہوگئے تو مباہلہ تک بات پہنچی تھی اور وہ مباہلہ میں بھی نہیں آئے تھے۔ ہمارے ہاں بھی بعض جگہ مباہلہ کی نوبت آئی ہے اور امین اوکاڑوی صاحب سے جو ایک مرتبہ ملتان ڈسٹرکٹ میں آئے تھے مباہلہ ہوا اور چونکہ مباہلہ اس بات پر تھا کہ جو حق پر نہیں ہے اس کی موت آجائے اور وہ زلیل و خوار ہو کر مرے اور الحمداللہ میں آج بھی زندہ ہوں ۲۰۰۳ میں اور دو یا تین سال پہلے امین اوکاڑوی صاحب فوت ہوگئے ہیں اور ملتان کے ساتھیوں نے بتلایا کہ وہ ٹائلٹ میں فوت ہوئے اور انھیں موت بھی برے طریقے سے آئی ۔ یہ ایک مباہلے کا اثر اور نتیجہ تھا۔ (ہم اہلحدیث کیوں ہوئے؟ صفحہ ۶۲۰ تا ۶۲۱)۔

 




حنفی مذہب کے تین کذاب

حنفی مذہب کی عمارت تین متنازعہ اشخاص کے ناقص اقوال کی بنیاد پر قائم ودائم ہے۔یہ تین اشخاص ،ابوحنیفہ اور ان کے دو شاگرد رشید ابویوسف اور محمد بن حسن شیبانی ہیں۔شاہ ولی اللہ حنفی لکھتے ہیں: جیسا کہ امام ابویوسف اور امام محمد کے مذاہب کو باہم پاتے ہیں کہ انکی تدوین امام ابوحنیفہ کے مذہب کی تدوین ہی میں ضم ہے۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 126)۔

ایک اور مقام پر شاہ ولی اللہ حنفی اس مسئلہ کی وضاحت میں رقمطراز ہیں: ان کے اندر کے سارے مسائل امام ابوحنیفہ کا مذہب کہے جانے لگے۔ اس طرح امام ابویوسف اور امام محمد کے مذاہب بھی امام ابوحنیفہ کے مذہب کے ساتھ مل گئے اور ان سب کو ایک ہی شمار کر لیا گیا۔ حالانکہ یہ دونوں حضرات بجائے خود مجتہد مطلق ہیں اور امام ابوحنیفہ سے انکے اختلافات کی فہرست کافی طویل ہے، نہ صرف فروع میں بلکہ اصول میں بھی۔(اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ، صفحہ 44)۔

ان گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ حنفیت اصل میں ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد بن حسن کے مختلف مذاہب، اقوال اور آراء کا مجموعہ ہے۔اس لئے حنفی مذہب کی عمارت انہی تین حضرات کے بیمار خیالات کی بنیادوں پر قائم ہے۔کسی بھی عمارت کی مضبوطی اور درستگی کو صحیح طور پر اس کی بنیاد ہی سے جانچا جاسکتا ہے ۔اگر بنیاد مضبوط اور درست ہو تو اس پر قائم ہونے والی عمارت بھی صحیح اور دیرپا ہوتی ہے ۔اسکے برعکس کمزور بنیادوں پر اٹھائی اور قائم کی جانے والی عمارت ناپائیدار اور متزلزل ہوتی ہے جس کے کسی بھی وقت زمین بوس ہونے کے قوی امکانات موجود رہتے ہیں۔ حنفی مذہب کی عمارت اندر سے کس قدر کھوکھلی اور بے جان ہے۔آئیے! جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مذہب حنفی کے ائمہ ثلاثہ یعنی ابوحنیفہ، ابویوسف اور محمد بن حسن المعروف امام محمد کے اقوال اسی صور ت میں قابل قبول اور لائق التفات ہوسکتے ہیں جب خود ان صاحبان کو امت نے بطور ثقہ،ایماندار اور سچوں کی حیثیت سے قبول کیا ہو۔اگر واقعہ اس کے خلاف ہو تو نہ تو ان حنفی اماموں کے اقوال کی کوئی حیثیت رہ جاتی ہے اور نہ ہی اس مذہب کی جو ان اقوال کی بنیاد پر قائم ہے۔گھر کے بھیدی لنکا ڈھائیں کے مصداق حنفی مذہب کے یہ ائمہ ثلاثہ خود ایک دوسرے کے کردار کے بارے میں کیا گواہی دے رہے ہیں۔ دیکھئے:

امام ابویوسف جو امام ابوحنیفہ کے مایہ ناز شاگرد ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اگر یہ نہ ہوتے تو حنفی مذہب دیگر متروک مذاہب کی طرح دنیا سے معدوم ہوجاتا۔محمد بن الحسن الشیبانی المعروف امام محمد کے بارے میں کہتے ہیں: قولو الھذا الکذاب یعنی محمد بن الحسن۔ ھذا الذی یرویہ عنی سمعہ منی؟ اس کذاب یعنی محمد بن الحسن سے کہو۔ یہ جو مجھ سے روایتیں بیان کرتا ہے کیا اس نے سنی ہیں؟ (تاریخ بغداد 2/180و سندہ حسن)۔

ابویوسف کی اس گواہی سے معلوم ہوا کہ ابوحنیفہ کا شاگرد محمد بن حسن (امام محمد) کذاب تھا۔یہ حنفی مذہب کی عمارت کا تیسرا ستون تھا جو ابویوسف کی اس گواہی کے بعد گر گیا۔اب حنفی مذہب کی عمارت دو بنیادوں پر باقی ہے ایک ابویوسف اور دوسرا خود ابوحنیفہ۔دیکھتے ہیں کہ ان دو ستونوں میں کتنا دم خم ہے۔

امام ابوحنیفہ نے ابو یوسف سے کہا: انکم تکتبون فی کتابنا ما لا نقولہ تم ہماری کتاب میں وہ باتیں لکھتے ہو جو ہم نہیں کہتے۔(الجرح والتعدیل 9/201و سندہ صحیح)۔

ایک اور روایت میں امام ابوحنیفہ نے قاضی ابویوسف کے بارے میں کہا: الا تعجبون من یعقوب،یقول علی مالا اقول کیا تم یعقوب (ابویوسف) پر تعجب نہیں کرتے ؟! وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر/ الاوسط للبخاری 2 /,209 210)۔

ابوحنیفہ نے اپنے ہی شاگرد کے بارے میں جھوٹا اور کذاب ہونے کی گواہی دی اور اس گواہی کے ساتھ ہی حنفی مذہب کی عمارت کا دوسرا ستون بھی زمین بوس ہوگیا۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس عمارت کا آخری ستون کب تک اس گرتی ہوئی عمارت کا بوجھ اٹھا پاتا ہے۔

امام اہلسنت احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے ابو حنیفہ کے بارے میں فرمایا: کان ابوحنیفہ یکذب ابوحنیفہ جھوٹ بولتا تھا۔(تاریخ بغداد،جلد 13، صفحہ 418)۔

اس متفق علیہ امام کی معتبر گواہی سے پتا چلا کہ ابوحنیفہ بھی اپنے دونوں شاگردوں کی طرح کذاب تھا۔

مذکورہ بالا ناقابل تردید گواہیوں سے ثابت ہوا کہ ابوحنیفہ، ابویوسف اور امام محمد جیسے کذابین کے اقوال،آرا اور فتاویٰ بھی ردی ہیں اور ان جھوٹوں کے ردی اقوال وآراء پر قائم شدہ حنفی مذہب بھی مردود ہے۔ ان دلائل کی روشنی میں کسی بھی ذی شعور انسان کے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ جوحنفی مذہب ان کذاب اماموں کے اقوال اور فتوؤں کا مجموعہ ہے اسکی حقائق اور سچائی کی دنیا میں کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے! ایسے باطل اور قاتل ایمانی حنفی مذہب سے براء ت اور احتراز ہر مسلمان پر اگر وہ اخروی نجات چاہتا ہے ازحد ضروری ہے۔کیونکہ ایسے کذابین اماموں کے باطل مذہب کو وہی شخص قبول کرے گا جو خود کذاب اور دجال ہوگا۔

حنفی حمام میں دیوبندی اور بریلوی دونوں ننگے

ایک شخص اپنے سگے بھائی کو ماں کی گالیاں دے رہا تھاایک عقلمند نے اسے سمجھایا کہ تو اپنی ماں کو کیوں گالیاں دے رہا ہے؟ اس شخص نے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں اپنی ماں کو نہیں بلکہ اس کی ماں کو گالیاں دے رہاہوں۔ اس بھلے مانس نے انہیں سمجھایا کہ تم دونوں کی ماں ایک ہی ہے اور ایک کا دوسر ے کی ماں کو گالیاں دینا اصل میں اپنی ہی ماں کو گالیاں دینا ہے۔ 

ہمیں نہیں معلوم کہ اس بھلے مانس کی بات اس بھائی کو سمجھ میں آئی یا نہیں۔ لیکن یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ اسی عادت بد میں مبتلا دیوبندیوں اور بریلویوں کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں کیونکہ یہ باتیں انہیں سمجھ میں آتیں ہیں جن کا دماغ تقلید کی لعنت سے بالکل ہی بیکار اور کنڈم نہ ہو گیا ہواور جن لوگوں میں کچھ غیرت اور شرم باقی ہو لیکن جن کا کشکول حیا اور غیرت سے بالکل ہی خالی ہوگیا ہو وہ یہ معقول باتیں سمجھنے سے بالکل قاصر رہتے ہیں اور انہیں کو توحنفی کہا جاتا ہے۔ 


مذکورہ بالامثال دیوبندیوں اور بریلویوں پر بالکل صادق آتی ہے جو اپنے ہی خود ساختہ امام اعظم کی فقہ کے حیا سوز اورسیکسی مسائل کسی دیوبندی یا بریلوی عالم کی طرف سے صرف کتاب میں نقل کئے جانے کی وجہ سے اس عالم کو مطعون کرتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ بریلویوں اور دیوبندیوں کی اسی بے حیائی اور بے غیرتی کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں جن کے ذریعے یہ دونوں گندے فرقے نہ صرف یہ کہ خود مذاق کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ لگے ہاتھوں اپنے ’’امام اعظم‘‘ ابوحنیفہ کو بھی اتنی گندی اور سیکسی فقہ کی تخلیق پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دل کھول کر گالیوں سے نوازتے ہیں۔ 

۔۱۔ حق(باطل) فورم پر مجذوب صاحب ایک مضمون لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے: بریلوی حج کرتے وقت بھی مشت زنی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں مجذوب صاحب (سابقہ کالا حضرت) الیاس قادری صاحب کی کتاب رفیق الحرمین کا اسکین پیش کرتے ہیں جس کے صفحہ ۲۴۴ پر ایک سوال کہ اگر خدانخواستہ کوئی محرم مشت زنی کا مرتکب ہوا تو کیا کفارہ ہے؟ کے جواب میں الیاس قادری (پادری) صاحب فرماتے ہیں: اگر انزال ہوگیا تو دم واجب ہے ورنہ مکروہ........(رفیق الحرمین ص۲۴۴)۔

اس سوال و جواب پر مجذوب صاحب اس طرح تبصرہ فرماتے ہیں:
 کیا ہم ایسے گندے مذہب پر لعنت نہ بھیجیں جس کے ماننے والے حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی مشت زنی کی مشق کرتے ہیں۔ 

اگردیوبندی مجذوب صاحب تھوڑی سی عقل رکھتے تو اس بریلوی حوالے پر ہرگز اس طرح کا تبصرہ نہ فرماتے کیونکہ حنفی حمام میں دونوں ننگے ہیں۔ بریلوی کو ننگا کرنے کا مطلب ہے کہ دیوبندی کا خود ننگا ہوجانا۔ خیر! اگر مجذوب صاحب میں عقل ہوتی تو مجذوب کیوں ہوتے؟! 

یہاں تو مجذوب صاحب حج کے موقعے پر صرف مشت زنی کا رونے رورہے ہیں دوسری طرف ان کے ’’امام اعظم‘‘ نے اپنی فقہ میں جو گل کھلائے ہیں اس سے تو شرم بھی شرما گئی ہے۔پڑھیے اور اپنے امام اور اپنی فقہ پر ہزارہا لعنت بھیجئے۔ 

اگر وہ جانور کے پاس آئے اور اس میں داخل کرے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہاں اگر انزال ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور اس کا حج فاسد نہیں ہوگا۔(فتاویٰ عالمگیری باب۸ فصل ۴ ص ۴۴۲) ۔

عورت کو دیکھا یا کسی کا تصور کیا یا مشت زنی کی اور منی خارج ہوئی تو ان سب صورتوں میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔(ہدایہ ج ۱ ص ۱۷۷ کتاب الصوم) ۔

مجذوب صاحب، بریلوی عالم کا نام لے کر جس گندے مذہب پر لعنت بھیج رہے ہیں کیا وہ یہی مذہب نہیں جو مجذوب صاحب کے مقدس امام ابوحنیفہ نے فقہ حنفی کے نام پر اپنے گھر میں گھڑا تھا۔ مجذوب صاحب کی اصل لعنت کا مستحق بریلوی عالم ہے یا اس بریلوی عالم سے بھی زیادہ گندہ مسئلہ پیش کرنے والا ان کا امام اور انکا حنفی مذہب؟!! ۔

یہاں ہم دیوبندیوں اور بریلویوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اس طرح کے فتوے دینے کا مطلب یہ نہیں کہ حنفی فقہاء اور حنفی مذہب کے بانی روزہ اور حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی 
مشت زنی کرتے اور جانوروں سے منہ کالاکروایا کرتے تھے؟؟؟!!! ۔

۔۲۔ بریلویوں کے فورم ’’اسلامی محفل‘‘ پر کواکھانا کیسا؟؟؟ کے عنوان سے ایک ممبر ’’اقرا‘‘ نے ایک تھریڈ شروع کیا جس کی بنیاد دیوبندیوں کی معتبر کتاب تذکرۃ الرشید کی عبارت کہ’’ کوا کھانا جائز ہے‘‘ کو بنایا گیاہے۔اور دیوبندیوں کو کوا خور قرار دیتے ہوئے خوب گالیوں سے نوازا گیاہے۔ حالانکہ جاہل بریلویوں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کوا کھانے کا فتویٰ دیوبندی مولوی نے خود نہیں گھڑا بلکہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترکہ امام، ابوحنیفہ صاحب نے یہ نادر مسئلہ خود فقہ حنفی میں درج کروایا ہے۔ملاحظہ کریں: ۔
اگر کوا وہ ہو جو گندگی کھاتا ہے اور کبھی دانے تو حضرت اما م ابو یوسف سے روایت ہے کہ وہ مکروہ ہے کیونکہ اس میں حلت اور حرمت کے دونوں موجب جمع ہو چکے ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور یہی صحیح ہے ۔مرغی پر قیاس کرتے ہوئے کیونکہ اس کے کھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔(مبسوط سرخسی ص ۲۲۶ ج۱۱) ۔

جاہل بریلویوں کی نظر سے انکے مذہب کی کتاب انوارشریعت بھی نہیں گزری جس میں اس مسئلہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے: جو (کوا) دانہ بھی کھاتا ہے اور مردار بھی کھاتا ہے جس کو عربی میں عقعق کہتے ہیں وہ امام صاحب کے نزدیک حلال ہے لیکن صاحبین کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور اول قول مفتی بہ ہے۔(انوارشریعت جلددوم ص۱۹۹) ۔

بریلوی جب خود یہ اقرار کر رہے ہیں کہ ابوحنیفہ کے نزدیک کوا حلا ل ہے اور یہی حنفی مذہب میں مفتی بہ قول ہے تو اگر ابوحنیفہ کے اسی مذہب کو رشید احمد گنگوہی نے اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں نقل کردیا تو اس پر رشید احمد گنگوہی کو گالیا ں دینے یا دیوبندیوں کو کوا خور کہنے کا کیا فائدہ ؟! شیشے کے گھر میں بیٹھ کردوسروں پر پتھر پھینکنا تو انتہائی بے وقوفی ہے۔ اگر تمہیں کوا کھانا اتنا ہی برا اور قابل ملامت لگتا ہے تو یہ لعنت ملامت دیوبندیوں پر نہیں بلکہ اپنے امام اعظم ابوحنیفہ پر فرمائیے۔ اور انہیں ننگی ننگی گالیاں دے کر اپنا دل ٹھنڈا کیجئے کیونکہ یہ فتوی اصل میں کسی دیوبندی یابریلوی کا نہیں بلکہ ابوحنیفہ کا ہے جوحرام خور کوے کا گوشت بہت پسند فرماتے تھے۔ 

یہ وہ حنفی حمام ہے جہاں ابوحنیفہ نے دیوبندیوں کے ساتھ بریلویوں کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ 
لہذاابوحنیفہ اور حنفی فقہاء کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور بریلوی بھی کوا خور ہیں۔یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ 

دیکھا آپ نے! دیوبندی اور بریلوی دونوں فقہ حنفی کو ماننے والے ہیں اور اگر کسی اہل حدیث کی طرف سے ان کی فقہ کے مسائل پر کوئی جائز اعتراض ہو تو دونوں جواباً قرآ ن اور حدیث پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور حنفی مسائل کے دفاع کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ دونوں کے فتاویٰ جات کا مآخذ بھی یہی فقہ حنفی کی کتابیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر اگر کوئی بریلوی عالم اپنی کتاب میں کسی حنفی مسئلہ کو ذکر کر دے تو دیوبندی اس مسئلہ کو بریلوی مذہب کا مسئلہ قرار دے کر خوب مذاق اڑاتے اور بریلویوں کو شرم دلاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اسی مسئلے کے قائل و فاعل ہوتے ہیں۔ بالکل یہی رویہ بریلویوں کا بھی ہے اس کی حالیہ مثال وہ واقعہ ہے کہ جب تقی عثمانی نے اپنی کتاب فقہی مقالات میں حنفی مذہب کا مفتی بہ مسئلہ (پیشاب اور خون سے سورہ فاتحہ لکھنا) ذکر کیا تو بریلویوں نے اسے تقی عثمانی کا ذاتی فتوی قراردیتے ہوئے خوب شور مچایا اور دیوبندیوں کو ننگا کرنے کے چکر میں بیچارے خود بھی ننگے ہوگئے 
کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق صرف دیوبندیوں سے نہیں بلکہ یہ بریلویوں کا بھی مذہبی مسئلہ ہے۔دونوں حنفی جو ٹھہرے!۔

عام حالات میں دیوبندی اور بریلوی دونوں کبھی بھی یہ اقرار و اعتراف نہیں کرتے کہ فقہ حنفی کے مسائل حیا سوز اور خلاف شرع و خلاف عقل ہیں لیکن آپس کے جھگڑوں میں یہ لوگ مخالف کو الزام دینے کے چکر میں ہر طرح کے اعترافات کر لیتے ہیں۔ 
دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک جب فقہ حنفی کے مسائل اتنے ہی بوگس اور خلاف شرع و عقل ہیں تو یہ منافق لوگ ایسی کنڈم فقہ کو خیر باد کیوں نہیں کہہ دیتے؟! دیوبندیوں اور بریلویوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس فضول فقہ پر لعنت بھیج کر قرآن اور حدیث کے مسائل پر عمل کرلیں اس سے انہیں دنیا میں بھی فائدہ ہوگا اور آخرت میں بھی ۔لیکن اگر اسی نجاست بھری فقہ حنفی پر عمل کرتے رہے تو اسی طرح ایک دوسرے کو لعنت و ملامت کرتے رہوگے اور دنیا میں بھی زلیل و خوار رہو گے اور آخرت میں بھی۔ امید ہے اس مخلصانہ مشورہ پر توجہ کرینگے۔  




  کیا یہ تقویٰ ہے؟


مولانا اسماعیل صاحب سنبھلی جو حضرت شیخ الاسلام کی خلافت سے بھی مشرف ہیں۔ اس مشہور واقعہ کے راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ٹرین میں حضرت والا فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو صاحب بہادر بھی اس ڈبہ میں سوار تھے۔ وہ قضا حاجت کے لئے پائخانہ میں گئے اور فوراً واپس آگئے۔ حضرت شیخ نے بھانپ لیا تھوڑی دیر کے بعد خاموشی سے اٹھے پائخانہ میں گئے وہ نہایت ہی گندہ ہو رہا تھا اس کو صاف کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد صاحب بہادر سے دریافت فرمایا کہ آپ پائخانہ سے کیوں واپس آگئے تھے؟ صاحب بہادر نے جواب دیا کہ وہ بہت گندہ ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ تو صاف ہے جاکر ملاحظہ فرمائیں، صاحب بہادر بے حد متاثر ہوئے۔(الجمعیہ شیخ الاسلام نمبر) (اکابر کا تقویٰ صفحہ نمبر 77)۔

حنفی مذہب میں اگر جسم پر نجاست لگ جائے تو تین مرتبہ زبان سے چاٹ کر اسے پاک کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی صد شکر ہے کہ شیخ الاسلام صاحب نے اپنے مذہب پر عمل فرماتے ہوئے اپنی زبان سے پائخانہ کی صفائی نہیں فرمائی بلکہ اس مقصد کے لئے صرف اپنے ہاتھوں ہی کو گندہ فرمایا ورنہ اگر وہ اپنی زبان سے پائخانہ کی نجاست چاٹ لیتے تو ہم کیا کرسکتے تھے سوائے یہ کہنے کے ، حنفی جانیں انکا مذہب جانے۔

جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب نے صرف تقویٰ سے متعلق اپنے سلسلے کے اکابرین کے واقعات زکر کئے ہیں۔ اس بات کی وضاحت اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۱۶پربھی موجود ہے جہاں صوفی محمد اقبال صاحب اپنے مرشد مولانا محمد زکریا صاحب کے حوالے سے اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہیں
بندہ نے مرشد پاک دام مجدہ کی تعمیل ارشاد میں اکابر کے تقویٰ کے چند واقعات حضرت ہی کی کتب سے نقل کردیئے ہیں۔ اور اس کے ساتھ حضرت کی بلا اجازت فصل پنجم میں حضرت کے کچھ واقعات اپنی یاد سے لکھ دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے، پڑھنے والوں میں تقویٰ کے جذبات پیدا فرمائیں۔ (اکابر کا تقویٰ ، ص۱۱۶)۔

اب ہمیں کوئی بتائے کہ پائخانہ کی صفائی کے اس واقعہ کاتعلق تقویٰ سے کس طرح بنتا ہے؟ کیا یہ تقویٰ کے کی کوئی نئی قسم دریافت ہوئی ہے؟! بہت ممکن ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب کے نزدیک یہ بھی تقویٰ ہی ہو کیونکہ ان کی دماغی حالت جو صحیح نہیں تھی (فضائل اعمال کا مقدمہ دیکھئے) لیکن دوسرے دیوبندیوں کی عقل تو ٹھکانے پر ہے۔ ان واقعات کومرتب کرکے کتابی شکل دینے والے صوفی محمد اقبال اور اس کتاب کو چھاپنے والے لوگ ہی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اس واقعہ کو اس کتاب سے نکال دیتے کیونکہ کتاب کے موضوع یعنی تقویٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔اور اگر بنتا ہے تو ہم دلیل کے منتظر ہیں۔


بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

میری کہانی، میری زبانی


اللہ رب العالمین کے مجھ پر ان گنت اور لاتعداد احسانات ہیں جن میں سے ایک بہت عظیم احسان راہ حق کی جانب راہنمائی اور اس پر استقامت ہے۔ کائنات کے رب کے احسانات کا کماحقہ شکر اداکرنامجھ سمیت کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔باطل سے حق کی طرف میرے سفرکی یہ کہانی میں آپ لوگوں کے گوش گزار اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اللہ رب العالمین کی اس عظیم نعمت کا بطوراحسان اظہار کروں اور حسب استطاعت شکر اداکروں۔

میں نے ایک بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔جہاں بریلویت صرف غیراللہ کی نذر و نیاز تک ہی محدود تھی۔بریلوی مذہب کی دیگر بدعات جیسے کونڈے، شب براء ت کے خود ساختہ اعمال اور مزارات پر حاضری وغیرہ سے ہمارا گھر کافی حد تک محفوظ رہا۔ سوائے میرے والد محترم کے کہ وہ آج تک نہایت متشدد صوفی ہیں۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین یا رب العالمین


دین و مذہب کے نام پر جو کچھ اپنے گھر اور اطراف میں دیکھافطری طور پر میں نے اسے اسلام سمجھ کرقبول کرلیا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ میں نے بعد نما ز جمعہ بریلویوں کا خود ساختہ صلوۃ وسلام بھی پڑھا۔اللہ کے فضل و کرم سے بچپن ہی سے میرا ذہنی رجحان مذہب کی طرف رہا۔اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا میں گزر جائے باقی دنیا کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ میری سوچ تو مذہبی تھی لیکن عملی طور پر میں مذہبی نہیں تھا۔پچپن میں کچھ عرصہ نمازی رہا لیکن بعد میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں۔وقت گزرتا رہا جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ایک خاتون سے انکے گھر پر ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ اور مذہب سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں ویسے تو وہ اکثر مجھے دین کی باتیں سمجھاتی تھیں لیکن ایک بات انہوں نے مجھے ایسی بتائی جو میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی اگرچہ اس وقت میں اسکے مفہوم کو بھی درست طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیونکہ اس وقت میں نہ تو کسی فرقے کو جانتا تھا نہ ہی مسلمانوں کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم تھا۔حیرت ہے کہ دیگر باتوں میں سے تو مجھے کوئی بات بھی یاد نہیں رہی اور اس ایک بات کو بھی میں نے دانستہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن نجانے کیوں مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ وہ بات یہ تھی کہ اسلام میں تقلید شخصی منع ہے۔میری زندگی کا یہ وہ قیمتی جملہ ہے جو بڑی حد تک حق کی قبولیت میں میرا معاون ثابت ہوا۔


اکیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا چونکہ مطالعے کے شوق کی وجہ سے مجھے کتابیں متاثر کرتی تھیں اور وہ شخص بھی میرے برابر میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا اس لئے میں نے بھی چند صفحات پڑھے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ جاننے کے لئے کہ کتاب کا نام کیا ہے میں نے اس شخص سے سرورق دکھانے کی درخواست کی اور پھر بازار سے وہ کتاب خرید لی۔وہ کتاب تھی مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مشہور زمانہ تصنیف اختلاف امت اور صراط مستقیم۔چونکہ میں اس وقت تک بریلوی تھا اس لئے میں نے خصوصی طور پر کتاب سے صرف وہ حصہ پڑھا جو بریلویوں سے متعلق اور انکے رد میں تھا۔جب میں نے دیکھا کہ مولانا نے قرآن وحدیث کے دلائل سے بریلوی مسلک کا غلط ہونا ثابت کیاہے تو میں نے فی الفور بریلوی مسلک چھوڑ کر دیوبندی مسلک اختیار کر لیا اور اسی کو حق سمجھنے لگا۔


بس پھر کیا تھا محلے میں بریلویت کی تردید میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا اور میری اصلاح سے مایوس ہوکر محلے کے ایک بریلوی حضرت نے میرے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور دیگر لوگوں کو منع کردیا کہ شاہد کے ساتھ سلام دعا نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔میرے والد نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مذہبی مسئلہ پر کسی سے بلاوجہ مخالفت مول نہ لو۔آہستہ آہستہ وہ جذبات سرد پڑ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چاروں طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا لیکن میراحامی و ہم مسلک کوئی نہیں تھا۔ میں نے ارد گرد بہت کوشش کی کہ کوئی ہم مسلک ڈھونڈ لو وگرنہ مجھے ڈر تھا کہ میں دین داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا نہ تو کوئی مجھے میرا ہم خیال ساتھی ملا اور نہ میں اپنی نمازوں اور دین کی دیگر دوسری باتوں پر ثابت قدم رہ سکا۔نمازیں بھی چھوٹ گئیں اور جو ایک مشت داڑھی رکھی تھی اسے بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرلیا۔پھر نام کے دیوبندی اور کام کے دنیا دار رہ گئے۔ عجیب بات ہے کہ میں جب دیوبندی تھا اور کوئی شخص مجھ سے میرا مسلک دریافت کرتا تھا تو مجھے ہمیشہ خود کو دیوبندی کہنے میں بہت شرم آتی تھی کیونکہ یہ نام مجھے مسلمانوں کا کم او ر ہندوؤں کا زیاد ہ لگتا تھا۔


اس دنیا داری نے ایسی مت ماری کہ میں حددرجہ پستی میں گر گیا۔اتنا کہ جب ہوش آیا تو میں حیران رہ گیا۔ضمیر نے جھنجھوڑا کہ ایسی زندگی کا کیا فائد ہ کہ دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی اور آخرت میں بھی حسرت اور ناکامی۔پھر اپنے رب کی توفیق سے اسکی جانب رجوع کیا۔اختلاف امت اور صراط مستقیم جو اس عرصے میں گھر سے لاپتا ہوگئی تھی کیونکہ میں نے اس کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اس لئے کہ اپنے مطلب کا حصہ پڑھ کر میں نے کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔چار،پانچ سال بعد میں نے وہ کتاب اپنے پڑوسی کے پاس دیکھی تو یہ کہکر کہ یہ میری کتاب ہے واپس لے لی۔اب میں نے اس کتاب کا ازسر نو مطالعہ شروع کیااور اب وہ حصے بھی پڑھے جو پہلے چھوڑ دئے تھے۔جب میں نے شیعہ سنی اختلاف ، بریلوی دیوبندی اختلاف اور مودودی کے رد والا حصہ پڑھا تو مولانا کے خیالات سے متفق ہوگیا کہ واقعی یہ تمام گمراہ فرقے ہیں کیونکہ دین میں ان تمام لوگوں کے اختلافات کو مولانا نے معقول دلائل سے ر د کیا تھا۔لیکن جب میں نے اہل حدیث کے رد والا حصہ پڑھا تو میرا دل مطمئن نہیں ہوااور شدت سے کسی کمی کا احساس ہوا۔خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ دوسرے فرقوں کا رد کرتے ہوئے تو مولانا نے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن اہل حدیث کے رد میں کوئی حدیث یا قرآنی آیت پیش نہیں کی ۔تقلید کو سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کی ایک مثال پیش کی اور آخر میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی کہ تقلید کے موضوع پر چونکہ دونوں اطراف سے بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے میں تفصیل بیا ن نہیں کرونگا۔


بس یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے تقلید کے موضوع پر دونوں اطراف کی کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب میں نے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ’’ہم تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ پڑھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ ترک تقلیدہی حق ہے۔حالانکہ بعد میں تقی عثمانی دیوبندی کی تقلید کی شرعی حیثیت بھی پڑھی لیکن تقلید کے بارے میں احناف کے کمزور موقف نے بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔


یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں ایک حدیث تہتر فرقوں سے متعلق بھی پڑھی تھی جس میں بہتر کے جہنم اورایک فرقے کے جنت میں جانے کی خبر تھی۔اسی دن سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت تک تحقیق کا سلسلہ جاری رکھوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے؟ میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اہل حدیث بھی کسی مسئلہ میں حق پر ہوسکتے ہیں کیونکہ لڑکپن ہی سے میں اہل حدیث کوان کے دو مسائل کی بنا پر گمراہ جانتا تھا ۔پہلا مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا اور دوسرا مسئلہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا۔


مجھے اہل حدیث کا کوئی تعارف حاصل نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کہاں سے ان کے مذکورہ بالا دو مسائل کان میں پڑ گئے تھے۔ بہرحال میں نے جان لیا کہ کم ازکم تقلید کے مسئلہ پر حق اہل حدیث کی جانب ہے لیکن اس تحقیق پر مجھے دھچکہ لگا ۔کیونکہ دیوبندی مسلک کو میں نے محدود تحقیق اور بریلویوں کے بالمقابل حق پر ہونے کی بنا پر قبول کیا تھا۔اس لئے فطری طور پر مجھے اس مسلک سے محبت تھی اور میں اسے چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔لیکن جنتی فرقے کے بارے میں جاننے کے شوق کی وجہ سے تحقیق بھی جاری و ساری رکھنی تھی ۔اس لئے میں نے دونوں اطراف کی اختلافی مسائل پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ آڈیو تقاریر سننے کا بھی آغاز کیا۔


تقلید کو جاننے کے بعد پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔جب میں نے فاتحہ خلف الامام کا آغاز کیا تو میں بے انتہاء مشقت میں پڑگیا کیونکہ بریلوی اور دیوبندی امام کی اسپیڈ نماز پڑھاتے وقت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ انتہائی مشکل سے میں ان کے پیچھے سورہ فاتحہ مکمل کر پاتا تھا ۔ میں عجیب مشکل کا شکار تھا کہ اگر سورہ فاتحہ پڑھتا تو رکعت رہ جانے کا ڈر اور اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھتا تو نماز نہ ہونے کا ڈرپھر با جماعت نماز بھی بہت ضروری تھی۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب بھی نماز ختم ہوتی کوئی نہ کوئی نمازی مجھے روک لیتا کہ آپ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ؟ یہ تو منع ہے۔پھر وہ مجھے امام سے بھی ملوانے کی کوشش کرتے کہ ا ن سے پوچھ لو کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔میری عادت تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا میں وہیں باجماعت نماز ادا کر لیتا تھا حتی کہ دوران سفر جب اذان کی آواز سنتا توبس سے اتر کر قریب ترین مسجد میں یہ دیکھے بغیر کہ یہ بریلوی مسجد ہے یا دیوبندی مسجد نماز پڑھ لیتا تھا۔اسی لئے باربار بعد نماز کسی نہ کسی کے روک لینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی وجہ سے میں بہت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔


سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے دور حنفیت میں دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔بس میر ا خیال تھا کہ وہی چند مسائل جن کا ذکر یوسف لدھیانوی نے اپنی کتا ب میں کیا ہے اس کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان چیزوں میں بھی کلی اختلاف نہیں بلکہ جزوی اختلاف ہے۔ جیسے غیر اللہ کی نذر و نیاز جو بریلوی حضرات کرتے ہیں دیوبندی اسے غلط بلکہ حرام کہتے ہیں لیکن اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یہ کہہ کر کہ یہ تواللہ کا رزق ہے اسے کھا لینا چاہیے۔ حالانکہ جو چیز غیر اللہ کی نذر کرنے کی وجہ سے حرام ہے وہ کھانے میں حرام کیوں نہیں؟ اسی سبب دیوبندی حضرات بریلویوں کی ان محافل میں جو غیر اللہ کی نذر و نیاز پر قائم ہوتی ہیں بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے کونڈے،محرم کی حلیم، شب براء ت کے حلوے اور عام روزمرہ کی نذر و نیاز وغیرہ۔ اسی طرح میلاد کا مسئلہ ہے جسے دیوبندی بدعت کہتے ہیں لیکن کچھ شرائط جیسے محفل میلاد میں قیام نہ کیا جائے کے ساتھ وہ بھی ان کے ہاں جائز ہے۔وغیرہ وغیرہ


بدتدریج مجھے یہ بھی علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رفع الیدین والی تھی۔ جب میں نے باقاعدہ رفع الیدین کا آغاز کیا تو جو بات چھپی ہوئی تھی وہ سامنے آگئی۔میرے دوستوں اور دفتر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دیوبندی مسلک سے کسی دوسرے مسلک کی طرف اس کا سفر شروع ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت تک بھی میں دیوبندی ہی تھا ۔بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ان دو تین مسائل میں دیوبندی مسلک درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔میں حقیقت میں دیوبندی مسلک چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک اختیار کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ دوران تحقیق اہل حدیث کا کوئی ایسا مسئلہ یقیناًسامنے آئے گا جس سے اس فرقے کی گمراہی کا مجھے یقین ہوجائے گا اور میں اس ناپسندیدہ مسلک سے بچ جاؤں گا۔ لیکن تحقیق کا ہر دن ایک نئی مشکل اور پریشانی لے کر آتا تھا میں جو مسئلہ اٹھاتا اس میں اہل حدیث کو حق پر اور دیوبندی کو باطل پر پاتا ۔میں اس چیز پر بھی حیران تھا کہ یہاں تو ہر مسئلے پر اختلاف ہے میں جن مسائل کو متفق علیہ سمجھتا تھا وہ بھی اختلافی نکلے اور انہیں مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا جیسے مجھے تو یہ معلوم تھا کہ ’’اللہ ہر جگہ ہے‘‘ یہ بات بچپن ہی سے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔جب مجھے یہ معلو م ہوا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس مسئلہ کی وجہ سے میں کئی دن پریشانی میں مبتلا رہا۔بہرحال اس چیز کو قبول کرنا پڑا جو حق تھی کیونکہ میں حق کو تلاش کررہاتھا چاہے وہ مجھے اپنے پسندیدہ فرقے میں ملتی یا ناپسندیدہ فرقے میں۔اہل حدیث کی کوئی کمزوری اور گمراہی ہاتھ آنے کی امید اور دیوبندیت کے حق پر ہونے کی دلیل پانے کی امید کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی تھی۔


پھر وہ دن آیا جب میں دوراہے پر کھڑا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں سابقہ دیوبندی مسلک پر قائم رہوں جو کہ مجھے پسند تھا ۔لیکن میرا ضمیر یہ گوارا کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ کسی ایک مسئلہ پر بھی میں نے دیوبندی مسلک کو حق پر نہیں پایا تھا۔ یا اہل حدیث مسلک کو اختیار کروں جو ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر حق ثابت ہوا۔ لیکن ایک ایسا مسلک جو میرے اطراف میں غیرمعروف اور کافی حد تک عجیب تھا کو اختیار کرنے کی میں خود میں ہمت نہیں پارہا تھا۔ اس مقام پر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے پرانے بے دینی کے دور کی طرف پلٹ جاؤں جہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ سب اچھا تھا سب صحیح تھا۔جب میں نے خود کو مجبور ،بے بس اور فیصلہ کرنے کے قابل نہ پایا تو اللہ رب العالمین سے دعا کہ جو مسلک تیرے نزدیک حق ہے اس کی طرف میرے دل کو پھیر دے۔ مایوسی اور پریشانی کے بادل چھٹ گئے او ر میرے رب نے مجھ پر بہت زیادہ رحم کرتے ہوئے میرے دل کو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل کردیا۔الحمداللہ ثم الحمداللہ


میں اپنی اکثر نمازیں گھر سے قریب بریلویوں کی مسجد میں ادا کرتا تھا ۔جب مجھے علم ہوا کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے تو میں نے اسے ترک کردیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوتی امام صاحب مقتدیوں سمیت اجتماعی دعا شروع کردیتے اور میں صف میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ۔صف سے فوراً نکلنا اس لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ پیچھے وہ نمازی اپنی نماز مکمل کررہے ہوتے تھے جن کی کچھ رکعات رہ گئی ہوتی تھیں۔اس بات کو ان بریلوی امام صاحب نے جلد ہی نوٹ کرلیا کہ میں اجتماعی دعا میں شریک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے براہ راست تو مجھے کچھ نہیں کہا لیکن گاہے بگاہے نماز کے بعد درس میں کہنے لگے کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ سب لوگ دعا میں شریک ہوں اور ایک شخص یوں ہی بیٹھا رہے۔ ارے دعا تو ایک عبادت ہے آخر دعا میں شریک ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ دعا سے محروم رہنا تو بدنصیبی ہے۔ پھر کسی نے ان امام صاحب کو جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بھی خبر کردی ۔جس پر انہوں نے کہا ۔امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں کون سا کمال ہے یہ تو سب کو آتی ہے۔ارے اگر اتنا ہی قرآن آتا ہے تو سورہ فاتحہ کے بعدمیں جو سورتیں پڑھتا ہوں وہ پڑھو تو جانوں۔ ابھی یہ مسائل چل رہے تھے کہ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ شروع ہونے سے پہلے حسب استطاعت نوافل پڑھنے چاہیے۔جب جمعہ آیا اور میں مسجد میں آیا تو امام صاحب تقریر کر رہے تھے کیونکہ ہم خطبہ اسی کو سمجھتے تھے جو تقریر کے بعد احناف عربی میں پڑھتے ہیں اس لئے میں نے تقریر سننے کے بجائے نوافل پڑھنا شروع کردئے۔امام صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی تقریر تو بھول گئے اور فرمانے لگے کہ نوافل تو کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں اس وقت تو ضروری تھا کہ تقریر سنتے۔ بس ان امام صاحب کے کان کھڑے ہوگئے انہیں لگا کہ میں مسجد میں فتنہ پھیلانے آتا ہوں لہذا انھوں نے مجھے نشانے پر رکھ لیا۔جب یہ معاملات شروع ہوئے تو میں قریب قریب مسلک اہل حدیث کو اختیار کر چکا تھا ۔لہذا کچھ کوشش کے بعد علاقے ہی میں اہل حدیث مسجد ڈھونڈ لی۔


اہل حدیث مسلک کے قبول و اعلان کے بعد مجھے گھر،دفتر اوردوست احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ میرے والد جو صوفی ہونے کی وجہ سے اہل حدیثوں سے شدید ترین نفرت کرتے تھے انہیں کسی طرح میرا مسلک قبول نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ دیوبندی تو پھر بھی ہمیں قابل قبول ہیں لیکن اہل حدیث مسلک تو کسی طور قابل برداشت نہیں۔اہل حدیث مسلک کے بارے میں میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ وہ یتیم مذہب ہے کہ ہمارے پچپن میں اس کے ماننے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے بلکہ سنتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں ایک وہابی رہتا ہے۔ جس مسلک کوکوئی پوچھتا نہیں تھا اور جس مذہب سے مجھے سخت نفرت تھی اسے میرے بیٹے نے اختیار کرلیا۔والد سے آئے روز کے جھگڑوں اور بحث و مباحثہ نے ان کے اور میرے بیچ اختلاف اور دوریوں کی ایک مضبوط دیوار قائم کردی ۔حتی کہ میں نے بات چیت بھی ترک کردی۔وقت گزرنے کے بعد جب والد کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے مجھے میرے مسلک کے ساتھ قبو ل کرلیا اور مجھے تنبیہ کی کہ ٹھیک ہے تم اپنے مسلک پر قائم رہو۔لیکن گھر میں کسی دوسرے کو اس کی دعوت مت دو۔میں کہاں باز آنے والا تھا ۔والد کی غیر موجودگی میں ، میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے میری دو بہنوں اور والدہ کو میرے ذریعے اہل حدیث بنا دیا۔الحمداللہ


جب میں اہل حدیث ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جس دفتر میں جن لوگوں کے ساتھ سالہا سال سے کام کررہا ہوں ان میں ایک باپ اور بیٹا خاندانی اہل حدیث ہیں۔لیکن اس پورے عرصے میں جب میں حق کی تلاش میں سرگرداں تھا انھوں نے میری کوئی رہنمائی نہیں کی ۔بلکہ مذہب پر میں ان دونوں کو کبھی کسی سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔اپنے اہل حدیث ہونے کے بعد میں نے اس اہل حدیث بیٹے کوجس کا نام عتیق تھا اور جو میرا دوست بھی تھا بتایا کہ بھائی آپ اہل حدیث ہوں اور اہل حدیث کے یہ مسائل اور یہ خصوصیات ہیں۔ عتیق کو صرف یہ پتا تھا کہ ہم اس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن اس طرح یعنی رفع الیدین سے نماز کیوں پڑھتے ہیں یہ علم نہیں تھا ۔اس میں ظاہر ہے ان کے والد کا بہت زیادہ قصور تھا کیونکہ ایک مرتبہ جب میری عتیق کے والد سے مذہب پر بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اختلافی مسائل میں ہر طرف احادیث موجود ہیں جو احادیث احناف کو ملیں انھوں نے اس پر عمل کر لیا اور جو اہل حدیث کو ملیں اس پر وہ عمل کرتے ہیں مطلب کہ حنفی اور اہل حدیث دونوں عامل بالحدیث ہیں۔ان کی ان فضول اور جاہلانہ سوچ پر مجھے بہت افسوس ہوا۔میں نے دل میں سوچا کہ اگر حقیقت یہی ہوتی تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ دیوبندیت چھوڑ کر اہل حدیث ہوتا اور اتنی مخالفتیں مول لیتا۔اللہ ان خاندانی اہل حدیثوں کو ہدایت دے کہ یہی لوگ دیوبندیوں حتی کے بریلویوں کے پیچھے بھی نماز ادا کرتے ہیں۔اور مسلک اہل حدیث کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر ان بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو اہل حدیثوں کو اپنی مساجد الگ بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟


میرے حق کے سفر میں دو باتیں بہت دلچسپ ہیں اور کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی۔


پہلی بات یہ کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے جو کتاب یعنی اختلاف امت اور صراط مستقیم لوگوں کوحق سے دور کرنے کے لئے لکھی تھی اسی کتاب کو اللہ نے میری ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ یعنی جس کتاب کو پڑھکر دوسرے لوگ گمراہ ہوئے اسی کتاب کو پڑھکر میں نے حق کو پایا۔


دوسری بات یہ کہ جس دور میں ،میں سخت بے راہ روی کا شکار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میرے گھر والے بھی اذیت میں مبتلا تھے۔اس دور میں میرے والد نے اللہ سے میری ہدایت کے لئے دعائیں کیں۔حدیث میں آتا ہے کہ بیٹے کے حق میں والد کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔پس اللہ نے ان کی دعاؤ ں کو قبول کیا اور میں ہدایت پر آگیا یعنی پوری بصیرت سے سچا اور حق مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔میرے والد نے بارہا یہ بات کہی کہ اگر مجھے معلو م ہوتا کہ میری دعا کی قبولیت کی وجہ سے یہ مسلک اہل حدیث قبول کرلے گا۔تو میں کبھی بھی اس کی ہدایت کے لئے دعا نہیں کرتا۔


لیکن کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔اللہ جس کی ہدایت کا فیصلہ کرلے اسے کون گمراہ کرسکتا ہے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے مجھ جیسے سخت گناہگار کو ہدایت دی۔جب میں سدھر گیا تو میرے سابقہ دوست بھی حیران رہ گئے اور میں بھی کہ جس راستے سے میرے رب نے مجھے پلٹا دیا ۔اس راستے سے بہت کم لوگ ہی واپس آتے ہیں کم ازکم میں نے اس راستے سے کسی کو پلٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر اس ایک نعمت کے لئے ہی میں ساری زندگی اپنے رحیم وکریم رب کا شکر ادا کرتا رہوں تو بہت کم ہے۔الحمداللہ رب العالمین