حنفی حمام میں دیوبندی اور بریلوی دونوں ننگے

ایک شخص اپنے سگے بھائی کو ماں کی گالیاں دے رہا تھاایک عقلمند نے اسے سمجھایا کہ تو اپنی ماں کو کیوں گالیاں دے رہا ہے؟ اس شخص نے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں اپنی ماں کو نہیں بلکہ اس کی ماں کو گالیاں دے رہاہوں۔ اس بھلے مانس نے انہیں سمجھایا کہ تم دونوں کی ماں ایک ہی ہے اور ایک کا دوسر ے کی ماں کو گالیاں دینا اصل میں اپنی ہی ماں کو گالیاں دینا ہے۔ 

ہمیں نہیں معلوم کہ اس بھلے مانس کی بات اس بھائی کو سمجھ میں آئی یا نہیں۔ لیکن یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ اسی عادت بد میں مبتلا دیوبندیوں اور بریلویوں کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں کیونکہ یہ باتیں انہیں سمجھ میں آتیں ہیں جن کا دماغ تقلید کی لعنت سے بالکل ہی بیکار اور کنڈم نہ ہو گیا ہواور جن لوگوں میں کچھ غیرت اور شرم باقی ہو لیکن جن کا کشکول حیا اور غیرت سے بالکل ہی خالی ہوگیا ہو وہ یہ معقول باتیں سمجھنے سے بالکل قاصر رہتے ہیں اور انہیں کو توحنفی کہا جاتا ہے۔ 


مذکورہ بالامثال دیوبندیوں اور بریلویوں پر بالکل صادق آتی ہے جو اپنے ہی خود ساختہ امام اعظم کی فقہ کے حیا سوز اورسیکسی مسائل کسی دیوبندی یا بریلوی عالم کی طرف سے صرف کتاب میں نقل کئے جانے کی وجہ سے اس عالم کو مطعون کرتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ بریلویوں اور دیوبندیوں کی اسی بے حیائی اور بے غیرتی کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں جن کے ذریعے یہ دونوں گندے فرقے نہ صرف یہ کہ خود مذاق کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ لگے ہاتھوں اپنے ’’امام اعظم‘‘ ابوحنیفہ کو بھی اتنی گندی اور سیکسی فقہ کی تخلیق پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دل کھول کر گالیوں سے نوازتے ہیں۔ 

۔۱۔ حق(باطل) فورم پر مجذوب صاحب ایک مضمون لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے: بریلوی حج کرتے وقت بھی مشت زنی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں مجذوب صاحب (سابقہ کالا حضرت) الیاس قادری صاحب کی کتاب رفیق الحرمین کا اسکین پیش کرتے ہیں جس کے صفحہ ۲۴۴ پر ایک سوال کہ اگر خدانخواستہ کوئی محرم مشت زنی کا مرتکب ہوا تو کیا کفارہ ہے؟ کے جواب میں الیاس قادری (پادری) صاحب فرماتے ہیں: اگر انزال ہوگیا تو دم واجب ہے ورنہ مکروہ........(رفیق الحرمین ص۲۴۴)۔

اس سوال و جواب پر مجذوب صاحب اس طرح تبصرہ فرماتے ہیں:
 کیا ہم ایسے گندے مذہب پر لعنت نہ بھیجیں جس کے ماننے والے حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی مشت زنی کی مشق کرتے ہیں۔ 

اگردیوبندی مجذوب صاحب تھوڑی سی عقل رکھتے تو اس بریلوی حوالے پر ہرگز اس طرح کا تبصرہ نہ فرماتے کیونکہ حنفی حمام میں دونوں ننگے ہیں۔ بریلوی کو ننگا کرنے کا مطلب ہے کہ دیوبندی کا خود ننگا ہوجانا۔ خیر! اگر مجذوب صاحب میں عقل ہوتی تو مجذوب کیوں ہوتے؟! 

یہاں تو مجذوب صاحب حج کے موقعے پر صرف مشت زنی کا رونے رورہے ہیں دوسری طرف ان کے ’’امام اعظم‘‘ نے اپنی فقہ میں جو گل کھلائے ہیں اس سے تو شرم بھی شرما گئی ہے۔پڑھیے اور اپنے امام اور اپنی فقہ پر ہزارہا لعنت بھیجئے۔ 

اگر وہ جانور کے پاس آئے اور اس میں داخل کرے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہاں اگر انزال ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور اس کا حج فاسد نہیں ہوگا۔(فتاویٰ عالمگیری باب۸ فصل ۴ ص ۴۴۲) ۔

عورت کو دیکھا یا کسی کا تصور کیا یا مشت زنی کی اور منی خارج ہوئی تو ان سب صورتوں میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔(ہدایہ ج ۱ ص ۱۷۷ کتاب الصوم) ۔

مجذوب صاحب، بریلوی عالم کا نام لے کر جس گندے مذہب پر لعنت بھیج رہے ہیں کیا وہ یہی مذہب نہیں جو مجذوب صاحب کے مقدس امام ابوحنیفہ نے فقہ حنفی کے نام پر اپنے گھر میں گھڑا تھا۔ مجذوب صاحب کی اصل لعنت کا مستحق بریلوی عالم ہے یا اس بریلوی عالم سے بھی زیادہ گندہ مسئلہ پیش کرنے والا ان کا امام اور انکا حنفی مذہب؟!! ۔

یہاں ہم دیوبندیوں اور بریلویوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اس طرح کے فتوے دینے کا مطلب یہ نہیں کہ حنفی فقہاء اور حنفی مذہب کے بانی روزہ اور حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی 
مشت زنی کرتے اور جانوروں سے منہ کالاکروایا کرتے تھے؟؟؟!!! ۔

۔۲۔ بریلویوں کے فورم ’’اسلامی محفل‘‘ پر کواکھانا کیسا؟؟؟ کے عنوان سے ایک ممبر ’’اقرا‘‘ نے ایک تھریڈ شروع کیا جس کی بنیاد دیوبندیوں کی معتبر کتاب تذکرۃ الرشید کی عبارت کہ’’ کوا کھانا جائز ہے‘‘ کو بنایا گیاہے۔اور دیوبندیوں کو کوا خور قرار دیتے ہوئے خوب گالیوں سے نوازا گیاہے۔ حالانکہ جاہل بریلویوں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کوا کھانے کا فتویٰ دیوبندی مولوی نے خود نہیں گھڑا بلکہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترکہ امام، ابوحنیفہ صاحب نے یہ نادر مسئلہ خود فقہ حنفی میں درج کروایا ہے۔ملاحظہ کریں: ۔
اگر کوا وہ ہو جو گندگی کھاتا ہے اور کبھی دانے تو حضرت اما م ابو یوسف سے روایت ہے کہ وہ مکروہ ہے کیونکہ اس میں حلت اور حرمت کے دونوں موجب جمع ہو چکے ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور یہی صحیح ہے ۔مرغی پر قیاس کرتے ہوئے کیونکہ اس کے کھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔(مبسوط سرخسی ص ۲۲۶ ج۱۱) ۔

جاہل بریلویوں کی نظر سے انکے مذہب کی کتاب انوارشریعت بھی نہیں گزری جس میں اس مسئلہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے: جو (کوا) دانہ بھی کھاتا ہے اور مردار بھی کھاتا ہے جس کو عربی میں عقعق کہتے ہیں وہ امام صاحب کے نزدیک حلال ہے لیکن صاحبین کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور اول قول مفتی بہ ہے۔(انوارشریعت جلددوم ص۱۹۹) ۔

بریلوی جب خود یہ اقرار کر رہے ہیں کہ ابوحنیفہ کے نزدیک کوا حلا ل ہے اور یہی حنفی مذہب میں مفتی بہ قول ہے تو اگر ابوحنیفہ کے اسی مذہب کو رشید احمد گنگوہی نے اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں نقل کردیا تو اس پر رشید احمد گنگوہی کو گالیا ں دینے یا دیوبندیوں کو کوا خور کہنے کا کیا فائدہ ؟! شیشے کے گھر میں بیٹھ کردوسروں پر پتھر پھینکنا تو انتہائی بے وقوفی ہے۔ اگر تمہیں کوا کھانا اتنا ہی برا اور قابل ملامت لگتا ہے تو یہ لعنت ملامت دیوبندیوں پر نہیں بلکہ اپنے امام اعظم ابوحنیفہ پر فرمائیے۔ اور انہیں ننگی ننگی گالیاں دے کر اپنا دل ٹھنڈا کیجئے کیونکہ یہ فتوی اصل میں کسی دیوبندی یابریلوی کا نہیں بلکہ ابوحنیفہ کا ہے جوحرام خور کوے کا گوشت بہت پسند فرماتے تھے۔ 

یہ وہ حنفی حمام ہے جہاں ابوحنیفہ نے دیوبندیوں کے ساتھ بریلویوں کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ 
لہذاابوحنیفہ اور حنفی فقہاء کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور بریلوی بھی کوا خور ہیں۔یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ 

دیکھا آپ نے! دیوبندی اور بریلوی دونوں فقہ حنفی کو ماننے والے ہیں اور اگر کسی اہل حدیث کی طرف سے ان کی فقہ کے مسائل پر کوئی جائز اعتراض ہو تو دونوں جواباً قرآ ن اور حدیث پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور حنفی مسائل کے دفاع کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ دونوں کے فتاویٰ جات کا مآخذ بھی یہی فقہ حنفی کی کتابیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر اگر کوئی بریلوی عالم اپنی کتاب میں کسی حنفی مسئلہ کو ذکر کر دے تو دیوبندی اس مسئلہ کو بریلوی مذہب کا مسئلہ قرار دے کر خوب مذاق اڑاتے اور بریلویوں کو شرم دلاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اسی مسئلے کے قائل و فاعل ہوتے ہیں۔ بالکل یہی رویہ بریلویوں کا بھی ہے اس کی حالیہ مثال وہ واقعہ ہے کہ جب تقی عثمانی نے اپنی کتاب فقہی مقالات میں حنفی مذہب کا مفتی بہ مسئلہ (پیشاب اور خون سے سورہ فاتحہ لکھنا) ذکر کیا تو بریلویوں نے اسے تقی عثمانی کا ذاتی فتوی قراردیتے ہوئے خوب شور مچایا اور دیوبندیوں کو ننگا کرنے کے چکر میں بیچارے خود بھی ننگے ہوگئے 
کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق صرف دیوبندیوں سے نہیں بلکہ یہ بریلویوں کا بھی مذہبی مسئلہ ہے۔دونوں حنفی جو ٹھہرے!۔

عام حالات میں دیوبندی اور بریلوی دونوں کبھی بھی یہ اقرار و اعتراف نہیں کرتے کہ فقہ حنفی کے مسائل حیا سوز اور خلاف شرع و خلاف عقل ہیں لیکن آپس کے جھگڑوں میں یہ لوگ مخالف کو الزام دینے کے چکر میں ہر طرح کے اعترافات کر لیتے ہیں۔ 
دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک جب فقہ حنفی کے مسائل اتنے ہی بوگس اور خلاف شرع و عقل ہیں تو یہ منافق لوگ ایسی کنڈم فقہ کو خیر باد کیوں نہیں کہہ دیتے؟! دیوبندیوں اور بریلویوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس فضول فقہ پر لعنت بھیج کر قرآن اور حدیث کے مسائل پر عمل کرلیں اس سے انہیں دنیا میں بھی فائدہ ہوگا اور آخرت میں بھی ۔لیکن اگر اسی نجاست بھری فقہ حنفی پر عمل کرتے رہے تو اسی طرح ایک دوسرے کو لعنت و ملامت کرتے رہوگے اور دنیا میں بھی زلیل و خوار رہو گے اور آخرت میں بھی۔ امید ہے اس مخلصانہ مشورہ پر توجہ کرینگے۔  




  کیا یہ تقویٰ ہے؟


مولانا اسماعیل صاحب سنبھلی جو حضرت شیخ الاسلام کی خلافت سے بھی مشرف ہیں۔ اس مشہور واقعہ کے راوی ہیں کہ ایک مرتبہ ٹرین میں حضرت والا فرسٹ کلاس میں سفر کر رہے تھے۔ ایک ہندو صاحب بہادر بھی اس ڈبہ میں سوار تھے۔ وہ قضا حاجت کے لئے پائخانہ میں گئے اور فوراً واپس آگئے۔ حضرت شیخ نے بھانپ لیا تھوڑی دیر کے بعد خاموشی سے اٹھے پائخانہ میں گئے وہ نہایت ہی گندہ ہو رہا تھا اس کو صاف کیا پھر واپس تشریف لے آئے۔ تھوڑی دیر بعد صاحب بہادر سے دریافت فرمایا کہ آپ پائخانہ سے کیوں واپس آگئے تھے؟ صاحب بہادر نے جواب دیا کہ وہ بہت گندہ ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ وہ تو صاف ہے جاکر ملاحظہ فرمائیں، صاحب بہادر بے حد متاثر ہوئے۔(الجمعیہ شیخ الاسلام نمبر) (اکابر کا تقویٰ صفحہ نمبر 77)۔

حنفی مذہب میں اگر جسم پر نجاست لگ جائے تو تین مرتبہ زبان سے چاٹ کر اسے پاک کیا جاسکتا ہے۔یہ بھی صد شکر ہے کہ شیخ الاسلام صاحب نے اپنے مذہب پر عمل فرماتے ہوئے اپنی زبان سے پائخانہ کی صفائی نہیں فرمائی بلکہ اس مقصد کے لئے صرف اپنے ہاتھوں ہی کو گندہ فرمایا ورنہ اگر وہ اپنی زبان سے پائخانہ کی نجاست چاٹ لیتے تو ہم کیا کرسکتے تھے سوائے یہ کہنے کے ، حنفی جانیں انکا مذہب جانے۔

جیسا کہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب نے صرف تقویٰ سے متعلق اپنے سلسلے کے اکابرین کے واقعات زکر کئے ہیں۔ اس بات کی وضاحت اس کتاب کے صفحہ نمبر ۱۱۶پربھی موجود ہے جہاں صوفی محمد اقبال صاحب اپنے مرشد مولانا محمد زکریا صاحب کے حوالے سے اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہیں
بندہ نے مرشد پاک دام مجدہ کی تعمیل ارشاد میں اکابر کے تقویٰ کے چند واقعات حضرت ہی کی کتب سے نقل کردیئے ہیں۔ اور اس کے ساتھ حضرت کی بلا اجازت فصل پنجم میں حضرت کے کچھ واقعات اپنی یاد سے لکھ دیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ لکھنے والے، پڑھنے والوں میں تقویٰ کے جذبات پیدا فرمائیں۔ (اکابر کا تقویٰ ، ص۱۱۶)۔

اب ہمیں کوئی بتائے کہ پائخانہ کی صفائی کے اس واقعہ کاتعلق تقویٰ سے کس طرح بنتا ہے؟ کیا یہ تقویٰ کے کی کوئی نئی قسم دریافت ہوئی ہے؟! بہت ممکن ہے کہ مولانا محمد زکریاصاحب کے نزدیک یہ بھی تقویٰ ہی ہو کیونکہ ان کی دماغی حالت جو صحیح نہیں تھی (فضائل اعمال کا مقدمہ دیکھئے) لیکن دوسرے دیوبندیوں کی عقل تو ٹھکانے پر ہے۔ ان واقعات کومرتب کرکے کتابی شکل دینے والے صوفی محمد اقبال اور اس کتاب کو چھاپنے والے لوگ ہی اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے اس واقعہ کو اس کتاب سے نکال دیتے کیونکہ کتاب کے موضوع یعنی تقویٰ سے اس کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔اور اگر بنتا ہے تو ہم دلیل کے منتظر ہیں۔


بسمہ اللہ الرحمن الرحیم

میری کہانی، میری زبانی


اللہ رب العالمین کے مجھ پر ان گنت اور لاتعداد احسانات ہیں جن میں سے ایک بہت عظیم احسان راہ حق کی جانب راہنمائی اور اس پر استقامت ہے۔ کائنات کے رب کے احسانات کا کماحقہ شکر اداکرنامجھ سمیت کسی بھی مخلوق کے بس کی بات نہیں۔باطل سے حق کی طرف میرے سفرکی یہ کہانی میں آپ لوگوں کے گوش گزار اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اللہ رب العالمین کی اس عظیم نعمت کا بطوراحسان اظہار کروں اور حسب استطاعت شکر اداکروں۔

میں نے ایک بریلوی گھرانے میں آنکھ کھولی ۔جہاں بریلویت صرف غیراللہ کی نذر و نیاز تک ہی محدود تھی۔بریلوی مذہب کی دیگر بدعات جیسے کونڈے، شب براء ت کے خود ساختہ اعمال اور مزارات پر حاضری وغیرہ سے ہمارا گھر کافی حد تک محفوظ رہا۔ سوائے میرے والد محترم کے کہ وہ آج تک نہایت متشدد صوفی ہیں۔اللہ انہیں ہدایت دے۔آمین یا رب العالمین


دین و مذہب کے نام پر جو کچھ اپنے گھر اور اطراف میں دیکھافطری طور پر میں نے اسے اسلام سمجھ کرقبول کرلیا۔مجھے یاد ہے کہ ایک دو مرتبہ میں نے بعد نما ز جمعہ بریلویوں کا خود ساختہ صلوۃ وسلام بھی پڑھا۔اللہ کے فضل و کرم سے بچپن ہی سے میرا ذہنی رجحان مذہب کی طرف رہا۔اکثر میں یہ سوچتا تھا کہ اصل زندگی وہی ہے جو اللہ کی رضا میں گزر جائے باقی دنیا کے پیچھے بھاگنا بے کار ہے۔ میری سوچ تو مذہبی تھی لیکن عملی طور پر میں مذہبی نہیں تھا۔پچپن میں کچھ عرصہ نمازی رہا لیکن بعد میں نمازیں بھی چھوٹ گئیں۔وقت گزرتا رہا جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ایک خاتون سے انکے گھر پر ٹیوشن پڑھتا تھا۔ وہ یونیورسٹی کی طالبہ اور مذہب سے محبت رکھنے والی خاتون تھیں ویسے تو وہ اکثر مجھے دین کی باتیں سمجھاتی تھیں لیکن ایک بات انہوں نے مجھے ایسی بتائی جو میرے ذہن سے چپک کر رہ گئی اگرچہ اس وقت میں اسکے مفہوم کو بھی درست طریقے سے نہیں سمجھ سکا تھا کیونکہ اس وقت میں نہ تو کسی فرقے کو جانتا تھا نہ ہی مسلمانوں کے درمیان مجھے کسی اختلاف کا علم تھا۔حیرت ہے کہ دیگر باتوں میں سے تو مجھے کوئی بات بھی یاد نہیں رہی اور اس ایک بات کو بھی میں نے دانستہ یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی لیکن نجانے کیوں مجھے وہ بات ہمیشہ یاد رہی۔ وہ بات یہ تھی کہ اسلام میں تقلید شخصی منع ہے۔میری زندگی کا یہ وہ قیمتی جملہ ہے جو بڑی حد تک حق کی قبولیت میں میرا معاون ثابت ہوا۔


اکیس برس کی عمر میں جب میں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا تو ایک مرتبہ دوران سفر میں نے ایک شخص کو ایک کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا چونکہ مطالعے کے شوق کی وجہ سے مجھے کتابیں متاثر کرتی تھیں اور وہ شخص بھی میرے برابر میں بیٹھا ہوا محو مطالعہ تھا اس لئے میں نے بھی چند صفحات پڑھے اس کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔یہ جاننے کے لئے کہ کتاب کا نام کیا ہے میں نے اس شخص سے سرورق دکھانے کی درخواست کی اور پھر بازار سے وہ کتاب خرید لی۔وہ کتاب تھی مولانا محمد یوسف لدھیانوی کی مشہور زمانہ تصنیف اختلاف امت اور صراط مستقیم۔چونکہ میں اس وقت تک بریلوی تھا اس لئے میں نے خصوصی طور پر کتاب سے صرف وہ حصہ پڑھا جو بریلویوں سے متعلق اور انکے رد میں تھا۔جب میں نے دیکھا کہ مولانا نے قرآن وحدیث کے دلائل سے بریلوی مسلک کا غلط ہونا ثابت کیاہے تو میں نے فی الفور بریلوی مسلک چھوڑ کر دیوبندی مسلک اختیار کر لیا اور اسی کو حق سمجھنے لگا۔


بس پھر کیا تھا محلے میں بریلویت کی تردید میں بحث و مباحثہ کا آغاز ہوگیا اور میری اصلاح سے مایوس ہوکر محلے کے ایک بریلوی حضرت نے میرے بائیکاٹ کا اعلان کردیااور دیگر لوگوں کو منع کردیا کہ شاہد کے ساتھ سلام دعا نہ کریں اور نہ ہی اس کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں۔میرے والد نے بھی مجھے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ مذہبی مسئلہ پر کسی سے بلاوجہ مخالفت مول نہ لو۔آہستہ آہستہ وہ جذبات سرد پڑ گئے اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے چاروں طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا لیکن میراحامی و ہم مسلک کوئی نہیں تھا۔ میں نے ارد گرد بہت کوشش کی کہ کوئی ہم مسلک ڈھونڈ لو وگرنہ مجھے ڈر تھا کہ میں دین داری سے ہاتھ دھو بیٹھوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا نہ تو کوئی مجھے میرا ہم خیال ساتھی ملا اور نہ میں اپنی نمازوں اور دین کی دیگر دوسری باتوں پر ثابت قدم رہ سکا۔نمازیں بھی چھوٹ گئیں اور جو ایک مشت داڑھی رکھی تھی اسے بھی اپنے ہاتھوں سے صاف کرلیا۔پھر نام کے دیوبندی اور کام کے دنیا دار رہ گئے۔ عجیب بات ہے کہ میں جب دیوبندی تھا اور کوئی شخص مجھ سے میرا مسلک دریافت کرتا تھا تو مجھے ہمیشہ خود کو دیوبندی کہنے میں بہت شرم آتی تھی کیونکہ یہ نام مجھے مسلمانوں کا کم او ر ہندوؤں کا زیاد ہ لگتا تھا۔


اس دنیا داری نے ایسی مت ماری کہ میں حددرجہ پستی میں گر گیا۔اتنا کہ جب ہوش آیا تو میں حیران رہ گیا۔ضمیر نے جھنجھوڑا کہ ایسی زندگی کا کیا فائد ہ کہ دنیا میں بھی ذلت اور رسوائی اور آخرت میں بھی حسرت اور ناکامی۔پھر اپنے رب کی توفیق سے اسکی جانب رجوع کیا۔اختلاف امت اور صراط مستقیم جو اس عرصے میں گھر سے لاپتا ہوگئی تھی کیونکہ میں نے اس کی حفاظت پر کوئی توجہ نہیں دی تھی اس لئے کہ اپنے مطلب کا حصہ پڑھ کر میں نے کتاب کو چھوڑ دیا تھا۔چار،پانچ سال بعد میں نے وہ کتاب اپنے پڑوسی کے پاس دیکھی تو یہ کہکر کہ یہ میری کتاب ہے واپس لے لی۔اب میں نے اس کتاب کا ازسر نو مطالعہ شروع کیااور اب وہ حصے بھی پڑھے جو پہلے چھوڑ دئے تھے۔جب میں نے شیعہ سنی اختلاف ، بریلوی دیوبندی اختلاف اور مودودی کے رد والا حصہ پڑھا تو مولانا کے خیالات سے متفق ہوگیا کہ واقعی یہ تمام گمراہ فرقے ہیں کیونکہ دین میں ان تمام لوگوں کے اختلافات کو مولانا نے معقول دلائل سے ر د کیا تھا۔لیکن جب میں نے اہل حدیث کے رد والا حصہ پڑھا تو میرا دل مطمئن نہیں ہوااور شدت سے کسی کمی کا احساس ہوا۔خاص طور پر میں نے یہ نوٹ کیا کہ دوسرے فرقوں کا رد کرتے ہوئے تو مولانا نے قرآن وحدیث سے دلائل پیش کئے ہیں لیکن اہل حدیث کے رد میں کوئی حدیث یا قرآنی آیت پیش نہیں کی ۔تقلید کو سمجھانے کے لئے ڈاکٹر اور مریض کی ایک مثال پیش کی اور آخر میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی کہ تقلید کے موضوع پر چونکہ دونوں اطراف سے بہت کتابیں لکھی جا چکی ہیں اس لئے میں تفصیل بیا ن نہیں کرونگا۔


بس یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے تقلید کے موضوع پر دونوں اطراف کی کتابیں پڑھنے کا فیصلہ کیا۔اس سلسلہ کی پہلی کتاب میں نے عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی ’’ہم تقلید کی مخالفت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ پڑھی۔اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میرے دل نے گواہی دی کہ ترک تقلیدہی حق ہے۔حالانکہ بعد میں تقی عثمانی دیوبندی کی تقلید کی شرعی حیثیت بھی پڑھی لیکن تقلید کے بارے میں احناف کے کمزور موقف نے بالکل بھی متاثر نہیں کیا۔


یوسف لدھیانوی صاحب کی کتاب میں ایک حدیث تہتر فرقوں سے متعلق بھی پڑھی تھی جس میں بہتر کے جہنم اورایک فرقے کے جنت میں جانے کی خبر تھی۔اسی دن سے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ میں اس وقت تک تحقیق کا سلسلہ جاری رکھوں گا جب تک میں یہ نہ جان لوں کہ جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہے؟ میرے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اہل حدیث بھی کسی مسئلہ میں حق پر ہوسکتے ہیں کیونکہ لڑکپن ہی سے میں اہل حدیث کوان کے دو مسائل کی بنا پر گمراہ جانتا تھا ۔پہلا مسئلہ ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک سمجھنا اور دوسرا مسئلہ یزید کو رحمتہ اللہ علیہ کہنا۔


مجھے اہل حدیث کا کوئی تعارف حاصل نہیں تھا لیکن معلوم نہیں کہاں سے ان کے مذکورہ بالا دو مسائل کان میں پڑ گئے تھے۔ بہرحال میں نے جان لیا کہ کم ازکم تقلید کے مسئلہ پر حق اہل حدیث کی جانب ہے لیکن اس تحقیق پر مجھے دھچکہ لگا ۔کیونکہ دیوبندی مسلک کو میں نے محدود تحقیق اور بریلویوں کے بالمقابل حق پر ہونے کی بنا پر قبول کیا تھا۔اس لئے فطری طور پر مجھے اس مسلک سے محبت تھی اور میں اسے چھوڑنے کی خواہش نہیں رکھتا تھا۔لیکن جنتی فرقے کے بارے میں جاننے کے شوق کی وجہ سے تحقیق بھی جاری و ساری رکھنی تھی ۔اس لئے میں نے دونوں اطراف کی اختلافی مسائل پر لکھی گئی کتابیں پڑھنے کے ساتھ آڈیو تقاریر سننے کا بھی آغاز کیا۔


تقلید کو جاننے کے بعد پھر مجھے یہ بھی معلوم ہوگیاکہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔جب میں نے فاتحہ خلف الامام کا آغاز کیا تو میں بے انتہاء مشقت میں پڑگیا کیونکہ بریلوی اور دیوبندی امام کی اسپیڈ نماز پڑھاتے وقت اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ انتہائی مشکل سے میں ان کے پیچھے سورہ فاتحہ مکمل کر پاتا تھا ۔ میں عجیب مشکل کا شکار تھا کہ اگر سورہ فاتحہ پڑھتا تو رکعت رہ جانے کا ڈر اور اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھتا تو نماز نہ ہونے کا ڈرپھر با جماعت نماز بھی بہت ضروری تھی۔اس کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ جب بھی نماز ختم ہوتی کوئی نہ کوئی نمازی مجھے روک لیتا کہ آپ نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کیوں پڑھی ؟ یہ تو منع ہے۔پھر وہ مجھے امام سے بھی ملوانے کی کوشش کرتے کہ ا ن سے پوچھ لو کہ جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو اس کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔میری عادت تھی کہ جہاں بھی نماز کا وقت ہوجاتا میں وہیں باجماعت نماز ادا کر لیتا تھا حتی کہ دوران سفر جب اذان کی آواز سنتا توبس سے اتر کر قریب ترین مسجد میں یہ دیکھے بغیر کہ یہ بریلوی مسجد ہے یا دیوبندی مسجد نماز پڑھ لیتا تھا۔اسی لئے باربار بعد نماز کسی نہ کسی کے روک لینے اور مجھے سمجھانے کی کوشش کی وجہ سے میں بہت کوفت میں مبتلا ہوگیا تھا۔


سچ تو یہ ہے کہ مجھے اپنے دور حنفیت میں دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوا۔بس میر ا خیال تھا کہ وہی چند مسائل جن کا ذکر یوسف لدھیانوی نے اپنی کتا ب میں کیا ہے اس کے علاوہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں کوئی اختلاف نہیں لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ ان چیزوں میں بھی کلی اختلاف نہیں بلکہ جزوی اختلاف ہے۔ جیسے غیر اللہ کی نذر و نیاز جو بریلوی حضرات کرتے ہیں دیوبندی اسے غلط بلکہ حرام کہتے ہیں لیکن اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے یہ کہہ کر کہ یہ تواللہ کا رزق ہے اسے کھا لینا چاہیے۔ حالانکہ جو چیز غیر اللہ کی نذر کرنے کی وجہ سے حرام ہے وہ کھانے میں حرام کیوں نہیں؟ اسی سبب دیوبندی حضرات بریلویوں کی ان محافل میں جو غیر اللہ کی نذر و نیاز پر قائم ہوتی ہیں بڑے ذوق شوق سے شرکت کرتے اور کھاتے پیتے ہیں جیسے کونڈے،محرم کی حلیم، شب براء ت کے حلوے اور عام روزمرہ کی نذر و نیاز وغیرہ۔ اسی طرح میلاد کا مسئلہ ہے جسے دیوبندی بدعت کہتے ہیں لیکن کچھ شرائط جیسے محفل میلاد میں قیام نہ کیا جائے کے ساتھ وہ بھی ان کے ہاں جائز ہے۔وغیرہ وغیرہ


بدتدریج مجھے یہ بھی علم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رفع الیدین والی تھی۔ جب میں نے باقاعدہ رفع الیدین کا آغاز کیا تو جو بات چھپی ہوئی تھی وہ سامنے آگئی۔میرے دوستوں اور دفتر والوں کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ دیوبندی مسلک سے کسی دوسرے مسلک کی طرف اس کا سفر شروع ہوگیا ہے۔حالانکہ اس وقت تک بھی میں دیوبندی ہی تھا ۔بس میں یہ سمجھتا تھا کہ ان دو تین مسائل میں دیوبندی مسلک درست نہیں باقی سب ٹھیک ہے۔میں حقیقت میں دیوبندی مسلک چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اور نہ ہی اہل حدیث مسلک اختیار کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ دوران تحقیق اہل حدیث کا کوئی ایسا مسئلہ یقیناًسامنے آئے گا جس سے اس فرقے کی گمراہی کا مجھے یقین ہوجائے گا اور میں اس ناپسندیدہ مسلک سے بچ جاؤں گا۔ لیکن تحقیق کا ہر دن ایک نئی مشکل اور پریشانی لے کر آتا تھا میں جو مسئلہ اٹھاتا اس میں اہل حدیث کو حق پر اور دیوبندی کو باطل پر پاتا ۔میں اس چیز پر بھی حیران تھا کہ یہاں تو ہر مسئلے پر اختلاف ہے میں جن مسائل کو متفق علیہ سمجھتا تھا وہ بھی اختلافی نکلے اور انہیں مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا جیسے مجھے تو یہ معلوم تھا کہ ’’اللہ ہر جگہ ہے‘‘ یہ بات بچپن ہی سے دل ودماغ میں بیٹھی ہوئی تھی ۔جب مجھے یہ معلو م ہوا کہ اللہ عرش پر مستوی ہے تو اس مسئلہ کی وجہ سے میں کئی دن پریشانی میں مبتلا رہا۔بہرحال اس چیز کو قبول کرنا پڑا جو حق تھی کیونکہ میں حق کو تلاش کررہاتھا چاہے وہ مجھے اپنے پسندیدہ فرقے میں ملتی یا ناپسندیدہ فرقے میں۔اہل حدیث کی کوئی کمزوری اور گمراہی ہاتھ آنے کی امید اور دیوبندیت کے حق پر ہونے کی دلیل پانے کی امید کمزور سے کمزورتر ہوتی جارہی تھی۔


پھر وہ دن آیا جب میں دوراہے پر کھڑا تھا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا کہ میں سابقہ دیوبندی مسلک پر قائم رہوں جو کہ مجھے پسند تھا ۔لیکن میرا ضمیر یہ گوارا کرنے پر تیار نہیں تھا کیونکہ کسی ایک مسئلہ پر بھی میں نے دیوبندی مسلک کو حق پر نہیں پایا تھا۔ یا اہل حدیث مسلک کو اختیار کروں جو ہر معاملے اور ہر مسئلہ پر حق ثابت ہوا۔ لیکن ایک ایسا مسلک جو میرے اطراف میں غیرمعروف اور کافی حد تک عجیب تھا کو اختیار کرنے کی میں خود میں ہمت نہیں پارہا تھا۔ اس مقام پر مجھے خواہش ہوئی کہ میں اپنے پرانے بے دینی کے دور کی طرف پلٹ جاؤں جہاں ایسی کوئی پریشانی نہیں تھی بلکہ سب اچھا تھا سب صحیح تھا۔جب میں نے خود کو مجبور ،بے بس اور فیصلہ کرنے کے قابل نہ پایا تو اللہ رب العالمین سے دعا کہ جو مسلک تیرے نزدیک حق ہے اس کی طرف میرے دل کو پھیر دے۔ مایوسی اور پریشانی کے بادل چھٹ گئے او ر میرے رب نے مجھ پر بہت زیادہ رحم کرتے ہوئے میرے دل کو اہل حدیث مسلک کی طرف مائل کردیا۔الحمداللہ ثم الحمداللہ


میں اپنی اکثر نمازیں گھر سے قریب بریلویوں کی مسجد میں ادا کرتا تھا ۔جب مجھے علم ہوا کہ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا بدعت ہے تو میں نے اسے ترک کردیا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی نماز ختم ہوتی امام صاحب مقتدیوں سمیت اجتماعی دعا شروع کردیتے اور میں صف میں خاموشی سے بیٹھا رہتا ۔صف سے فوراً نکلنا اس لئے ممکن نہیں ہوتا تھا کہ پیچھے وہ نمازی اپنی نماز مکمل کررہے ہوتے تھے جن کی کچھ رکعات رہ گئی ہوتی تھیں۔اس بات کو ان بریلوی امام صاحب نے جلد ہی نوٹ کرلیا کہ میں اجتماعی دعا میں شریک نہیں ہوتا ۔ انہوں نے براہ راست تو مجھے کچھ نہیں کہا لیکن گاہے بگاہے نماز کے بعد درس میں کہنے لگے کہ میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ سب لوگ دعا میں شریک ہوں اور ایک شخص یوں ہی بیٹھا رہے۔ ارے دعا تو ایک عبادت ہے آخر دعا میں شریک ہونے میں حرج ہی کیا ہے؟ دعا سے محروم رہنا تو بدنصیبی ہے۔ پھر کسی نے ان امام صاحب کو جماعت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بھی خبر کردی ۔جس پر انہوں نے کہا ۔امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے میں کون سا کمال ہے یہ تو سب کو آتی ہے۔ارے اگر اتنا ہی قرآن آتا ہے تو سورہ فاتحہ کے بعدمیں جو سورتیں پڑھتا ہوں وہ پڑھو تو جانوں۔ ابھی یہ مسائل چل رہے تھے کہ میرے علم میں اضافہ ہوا کہ جمعہ کے دن خطبہ شروع ہونے سے پہلے حسب استطاعت نوافل پڑھنے چاہیے۔جب جمعہ آیا اور میں مسجد میں آیا تو امام صاحب تقریر کر رہے تھے کیونکہ ہم خطبہ اسی کو سمجھتے تھے جو تقریر کے بعد احناف عربی میں پڑھتے ہیں اس لئے میں نے تقریر سننے کے بجائے نوافل پڑھنا شروع کردئے۔امام صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی تو اپنی تقریر تو بھول گئے اور فرمانے لگے کہ نوافل تو کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں اس وقت تو ضروری تھا کہ تقریر سنتے۔ بس ان امام صاحب کے کان کھڑے ہوگئے انہیں لگا کہ میں مسجد میں فتنہ پھیلانے آتا ہوں لہذا انھوں نے مجھے نشانے پر رکھ لیا۔جب یہ معاملات شروع ہوئے تو میں قریب قریب مسلک اہل حدیث کو اختیار کر چکا تھا ۔لہذا کچھ کوشش کے بعد علاقے ہی میں اہل حدیث مسجد ڈھونڈ لی۔


اہل حدیث مسلک کے قبول و اعلان کے بعد مجھے گھر،دفتر اوردوست احباب کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرناپڑا۔ میرے والد جو صوفی ہونے کی وجہ سے اہل حدیثوں سے شدید ترین نفرت کرتے تھے انہیں کسی طرح میرا مسلک قبول نہیں تھا بلکہ ان کا کہنا تھا کہ دیوبندی تو پھر بھی ہمیں قابل قبول ہیں لیکن اہل حدیث مسلک تو کسی طور قابل برداشت نہیں۔اہل حدیث مسلک کے بارے میں میرے والد کا کہنا تھا کہ یہ وہ یتیم مذہب ہے کہ ہمارے پچپن میں اس کے ماننے والے دور دور تک نظر نہیں آتے تھے بلکہ سنتے تھے کہ فلاں فلاں گاؤں میں ایک وہابی رہتا ہے۔ جس مسلک کوکوئی پوچھتا نہیں تھا اور جس مذہب سے مجھے سخت نفرت تھی اسے میرے بیٹے نے اختیار کرلیا۔والد سے آئے روز کے جھگڑوں اور بحث و مباحثہ نے ان کے اور میرے بیچ اختلاف اور دوریوں کی ایک مضبوط دیوار قائم کردی ۔حتی کہ میں نے بات چیت بھی ترک کردی۔وقت گزرنے کے بعد جب والد کا غصہ کچھ کم ہوا تو انہوں نے مجھے میرے مسلک کے ساتھ قبو ل کرلیا اور مجھے تنبیہ کی کہ ٹھیک ہے تم اپنے مسلک پر قائم رہو۔لیکن گھر میں کسی دوسرے کو اس کی دعوت مت دو۔میں کہاں باز آنے والا تھا ۔والد کی غیر موجودگی میں ، میں نے اپنا کام جاری رکھا اور اللہ نے میری دو بہنوں اور والدہ کو میرے ذریعے اہل حدیث بنا دیا۔الحمداللہ


جب میں اہل حدیث ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میں جس دفتر میں جن لوگوں کے ساتھ سالہا سال سے کام کررہا ہوں ان میں ایک باپ اور بیٹا خاندانی اہل حدیث ہیں۔لیکن اس پورے عرصے میں جب میں حق کی تلاش میں سرگرداں تھا انھوں نے میری کوئی رہنمائی نہیں کی ۔بلکہ مذہب پر میں ان دونوں کو کبھی کسی سے گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔اپنے اہل حدیث ہونے کے بعد میں نے اس اہل حدیث بیٹے کوجس کا نام عتیق تھا اور جو میرا دوست بھی تھا بتایا کہ بھائی آپ اہل حدیث ہوں اور اہل حدیث کے یہ مسائل اور یہ خصوصیات ہیں۔ عتیق کو صرف یہ پتا تھا کہ ہم اس طرح نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن اس طرح یعنی رفع الیدین سے نماز کیوں پڑھتے ہیں یہ علم نہیں تھا ۔اس میں ظاہر ہے ان کے والد کا بہت زیادہ قصور تھا کیونکہ ایک مرتبہ جب میری عتیق کے والد سے مذہب پر بات ہوئی تو انھوں نے فرمایا کہ اختلافی مسائل میں ہر طرف احادیث موجود ہیں جو احادیث احناف کو ملیں انھوں نے اس پر عمل کر لیا اور جو اہل حدیث کو ملیں اس پر وہ عمل کرتے ہیں مطلب کہ حنفی اور اہل حدیث دونوں عامل بالحدیث ہیں۔ان کی ان فضول اور جاہلانہ سوچ پر مجھے بہت افسوس ہوا۔میں نے دل میں سوچا کہ اگر حقیقت یہی ہوتی تو مجھے کیا ضرورت تھی کہ دیوبندیت چھوڑ کر اہل حدیث ہوتا اور اتنی مخالفتیں مول لیتا۔اللہ ان خاندانی اہل حدیثوں کو ہدایت دے کہ یہی لوگ دیوبندیوں حتی کے بریلویوں کے پیچھے بھی نماز ادا کرتے ہیں۔اور مسلک اہل حدیث کو بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اگر ان بریلویوں اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز ہوجاتی ہے تو اہل حدیثوں کو اپنی مساجد الگ بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟


میرے حق کے سفر میں دو باتیں بہت دلچسپ ہیں اور کافی حد تک ایک دوسرے سے ملتی جلتی بھی۔


پہلی بات یہ کہ یوسف لدھیانوی صاحب نے جو کتاب یعنی اختلاف امت اور صراط مستقیم لوگوں کوحق سے دور کرنے کے لئے لکھی تھی اسی کتاب کو اللہ نے میری ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ یعنی جس کتاب کو پڑھکر دوسرے لوگ گمراہ ہوئے اسی کتاب کو پڑھکر میں نے حق کو پایا۔


دوسری بات یہ کہ جس دور میں ،میں سخت بے راہ روی کا شکار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے میرے گھر والے بھی اذیت میں مبتلا تھے۔اس دور میں میرے والد نے اللہ سے میری ہدایت کے لئے دعائیں کیں۔حدیث میں آتا ہے کہ بیٹے کے حق میں والد کی دعا جلدی قبول ہوتی ہے۔پس اللہ نے ان کی دعاؤ ں کو قبول کیا اور میں ہدایت پر آگیا یعنی پوری بصیرت سے سچا اور حق مسلک اہل حدیث قبول کرلیا۔میرے والد نے بارہا یہ بات کہی کہ اگر مجھے معلو م ہوتا کہ میری دعا کی قبولیت کی وجہ سے یہ مسلک اہل حدیث قبول کرلے گا۔تو میں کبھی بھی اس کی ہدایت کے لئے دعا نہیں کرتا۔


لیکن کسی کے چاہنے یا نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔اللہ جس کی ہدایت کا فیصلہ کرلے اسے کون گمراہ کرسکتا ہے۔ بے شک تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس نے مجھ جیسے سخت گناہگار کو ہدایت دی۔جب میں سدھر گیا تو میرے سابقہ دوست بھی حیران رہ گئے اور میں بھی کہ جس راستے سے میرے رب نے مجھے پلٹا دیا ۔اس راستے سے بہت کم لوگ ہی واپس آتے ہیں کم ازکم میں نے اس راستے سے کسی کو پلٹتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر اس ایک نعمت کے لئے ہی میں ساری زندگی اپنے رحیم وکریم رب کا شکر ادا کرتا رہوں تو بہت کم ہے۔الحمداللہ رب العالمین