بریلویوں کے غوث الاعظم، بریلوی عدالت میں

اہل باطل اپنے خود ساختہ نظریات کے دفاع میں اور مخالفین کو چپ کروانے کے لئے گاہے بگاہے ایسے اصول وضع کرتے ہیں کہ ایک اصول دوسرے اصول سے متصادم ہوکر انہیں جھوٹا ثابت کردیتا ہے تو کہیں ایک اصول جو انہوں نے کسی شخصیت کی شان میں گھڑا ہوتا ہے انہیں کے کسی دوسرے اصول کی روشنی میں گستاخی اور توہین قرار پاتا ہے۔ 

باطل اور جھوٹے نظریات کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ انہیں سلجھانے کی جو بھی تدبیر کی جائے یہ گیسوئے جاناں کی طرح مزیدالجھتے ہیں اور بالآخر باطل پرستوں کا پول کھولنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ گویا مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

اس طرح کے معاملات میں باطل پرستوں کی خیریت اسی میں ہوتی ہے کہ وہ خاموشی اختیار کریں اور اپنی جان بچائیں لیکن بھلا ہو ان حق پرستوں کا جو اپنے ناقابل تردید دلائل سے ان کی نیندیں حرام کئے رکھتے ہیں۔ پھر مجبوراً یہ بیچارے باطل پرست اپنے دفاع میں منہ کھولتے اور پکڑے جاتے ہیں۔

ایسی ہی تین عدد بریلوی مثالیں پیش خدمت ہیں جن میں بریلوی اپنے باطل نظریات کے دفاع میں اپنے خود ساختہ غوث الاعظم کی شدید توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایسے انصاف پسند بریلوی حضرات کو غور وفکر کی دعوت دی جاتی ہے جو بریلوی علماء کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے اہل حدیث کو گستاخ جانتے ہیں،وہ بتائیں کیا بریلوی علماء گستاخ نہیں ہیں؟

پہلی مثال:۔
علامہ محمد فیض احمد اویسی جو بریلویوں کے شیخ الحدیث ہیں شیخ عبدالقادر جیلانی کو فخریہ مقلد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: الحمداللہ وہ مقلد تھے غیر مقلد نہیں تھے۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۷)۔

لیکن اس اعتراف کے ساتھ احمد اویسی صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ وہ مجتہد فی المذہب تھے۔چناچہ لکھتے ہیں:
غوث اعظم رضی اللہ عنہ مجتہد فی المذہب تھے آپ اجتہاد کرتے تھے ان کا اجتہاد کبھی تو مسلک شافعی پر ہوتا اور کبھی مسلک حنبلی پر۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۸)۔

کسی شخص کا بیک وقت مقلد اور مجتہد ہونا شاید تقلیدی تاریخ کی پہلی مثال ہے ورنہ تو ہم اب تک مقلدین کی زبانی یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ جومجتہد ہو وہ مقلد نہیں ہوتا اور جو مقلد ہو وہ مجتہد نہیں ہوتا۔

شیخ عبدالقادر جیلانی مجتہد فی المذہب ہوتے ہوئے بھی مقلد کیوں تھے اس کا جواب دیتے ہوئے احمد اویسی بریلوی رقم طراز ہیں: ورنہ آپ چاہتے تو اپنے اجتہاد سے آیات و احادیث سے ہزاروں مسائل کا استنباط فرماتے لیکن نہیں، امت کے حال پر ترس کھا کر شیرازہ بکھیرنے کے بجائے تقلید کے باب کو اور مضبوط تر بنادیا۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۸)۔

گویا بریلویوں کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی کا مقلد ہونا بھی امت محمدیہ پر احسان عظیم ہے وگرنہ موصوف مقلد نہ بنتے تو امت کا شیراز ہ بکھر جاتا!!۔

بریلویوں کی اپنے نام نہاد غوث اعظم کی شان میں گھڑی ہوئی یہ کہانی کیسے ان کے دوسرے اصول سے انہیں گستاخ بنارہی ہے ملاحظہ فرمائیں:۔

بریلوی مفتی احمد یار نعیمی’ کس پر تقلید کرنا واجب ہے اور کس پر نہیں‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں: 
غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے۔ مجتہد کے لئے تقلید منع ہے۔(جاء الحق، ص26)۔

معلوم ہوا جو مجتہد نہ ہو اس پر تقلید واجب ہے لیکن جو مجتہد ہو اور پھر بھی تقلید کرے اس کے بارے میں احمد یار نعیمی لکھتے ہیں: ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔(جاء الحق، ص27) ۔

اسی طرح بریلوی مذہب کے بانی احمد رضا خان صاحب لکھتے ہیں: یہ حکم اس مذہب جمہور پر ہے کہ ایک مجتہد کے لئے دوسرے مجتہد کی تقلید جائز نہیں۔(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام، ص۱۲۱)۔

مزید لکھتے ہیں کہ مجتہد اگر مجتہد کی تقلید کرے تو اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔دیکھئے: 

معلوم ہوچکا کہ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اہل نظر و اجتہاد کے لئے یہ جائز نہیں کہ دوسرے مجتہد کی تقلید کرے اور وہ اگر دوسرے کا قول اس کی دلیل تفصیلی سے آگاہی کے بغیر لے لیتا ہے تو جمہور کے نزدیک یہ تقلید حقیقی میں شامل ہے جو بالاجماع حرام ہے۔(اجلی الاعلام ان الفتوی مطلقا علیٰ قول الامام، ص۱۲۳)۔

اس بریلوی اصول سے ثابت ہوا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی نے اپنی تمام زندگی ایک حرام اور ناجائزکام کرتے ہوئے گزاری۔ جو زندگی بھر حرام کا مرتکب رہا ہو ایسا شخص ولی اللہ ہونا تو کجا کیا ولی اللہ کہلائے جانے کے بھی قابل ہے؟؟؟
بریلویوں کو چاہیے کہ فوراًاپنے نام نہاد غوث اعظم کی مریدی سے کنارہ کش ہو جائیں کیونکہ خو د ان کے اصول پران کے خودساختہ غوث اعظم حرام اور ناجائز کام میں زندگی بسر کرنے والے فاسق اور فاجرشخص قرار پاتے ہیں۔

دوسری مثال:۔
محمد فیض احمد اویسی بریلوی کے نزدیک تصوف کے سلسلوں میں سے دو سلسلوں(سہروردیہ، نقشبندیہ) کے بانی شیخ عبدالقادر جیلانی کے فیض یافتہ ہیں بلکہ یہ دونوں سلسلے شیخ عبدالقادر جیلانی ہی کے مرہون منت ہیں اور تصوف کا قادری سلسلہ تو خاص عبدالقادر جیلانی ہی سے منسوب ہے۔ یعنی تصوف کے تمام سلسوں میں شیخ عبدالقادر جیلانی کا بڑا حصہ ہے جیسا کہ فیض احمد اویسی نے مجدد الف ثانی کا قول نقل کیا ہے: بھئی کسی کو روحانی فیض ملا ہے وہ غوث اعظم سے ملا ہے اور آپ ہی مرکز ولایت اور قطبیت ہیں۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۱)۔

دوسری طرف بریلویوں کے مفتی احمد یار نعیمی تصوف کے تمام سلسلوں کو واضح طور پر بدعت قرار دیتے ہیں۔دیکھئے لکھتے ہیں: شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی .....قادری ، چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں۔ان میں سے بعض کے تو نام تک بھی عربی نہیں۔جیسے چشتی یا نقشبندی، کوئی صحابی ، تابعی ، حنفی ، قادری نہ ہوئے۔(جاء الحق، ص229)۔

کیا بریلویوں کے اپنے ہی اصول سے ان کے غوث اعظم بدعتی قرار نہیں پاتے؟؟؟!!!۔
کیا ایک بدعتی بھی ولی اللہ ہوسکتا ہے یا ایسے شخص کے لئے شیطان کا ولی ہونا زیادہ لائق مستحق ہے؟!۔

تیسری مثال:۔
بریلویوں کے نزدیک شیخ عبدالقادر جیلانی امام احمد بن حنبل کے مقلد تھے۔ محمد فیض احمد اویسی لکھتے ہیں: خلاصہ یہ کہ آپ نے امور باطنہ میں مصروفیت کیوجہ سے فقہی امور میں امام احمد بن حنبل کی تقلید اختیار فرمائی۔(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۱)۔

شیخ عبدالقادر جیلانی حنبلی مقلد کیوں تھے حنفی، مالکی یا شافعی کیوں نہیں تھے اور انہوں نے ایک افضل امام (حنفیوں کے نزدیک ابوحنیفہ سب سے افضل امام، امام اعظم ہیں)کو چھوڑ کر مفضول امام کی تقلید کیوں اختیار کی اسکا جواب دیتے ہوئے محمد فیض احمد اویسی بریلوی ایک گستاخانہ واقع نقل کرتے ہیں:۔

ایک دن آپ کے دل میں تقلید مذہب کا خیال پیدا ہوا تو اسی رات دیکھا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم بمع جمیع صحابہ کرام تشریف فرما ہیں اور امام احمد بن حنبل اپنی داڑھی پکڑ کر کھڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کررہے ہیں۔
یا رسول اللہ اپنے پیارے بیٹے محی الدین سید عبدالقادر کو فرمائیے کہ اس بڈھے کی (یعنی میری) حمایت کرے آپ نے تبسم فرماتے ہوئے کہااے عبدالقادر اس کی عرض قبول کر تو آپ نے ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرتے ہوئے ان کی التماس قبول کر لی اور صبح کی نماز مصلے حنبلی پر پڑھی اور اس دن امام کے علاوہ دوسرا کوئی مقتدی نہ تھا کہ جماعت کرائی جاسکتی آپ کے تشریف لانے سے ہی خلقت کا اس قدر ہجوم ہوا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔راوی کہتا ہے کہ اگر حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ اس دن مصلی حنبلی پر نماز نہ پڑھتے تو حنبلی مذہب صفحہ ہستی سے مٹ جاتا۔
(کیا غوث اعظم وہابی تھے؟ ص۱۲)۔

اس کے سراسر برعکس بریلوی مفتی احمد یار نعیمی ، حنبلی ، شافعی ، مالکی اور حنفی سلسلوں کو بدعت کہتے ہیں: شریعت و طریقت دونوں کے چار چار سلسلے یعنی حنفی، شافعی ، مالکی ، حنبلی اسی طرح قادری ، چشتی، نقشبندی، سہروردی یہ سب سلسلے بالکل بدعت ہیں........کوئی صحابی ، تابعی ، حنفی ، قادری نہ ہوئے....جب ایمان اور کلمہ میں بدعات داخل ہیں۔تو بدعت سے چھٹکارا کیسا؟(جاء الحق، ص229)۔

اس بریلوی اصول سے شیخ عبدالقادر جیلانی جنھیں بریلوی اپنا غوث الاعظم سمجھتے ہیں بلا شک و شبہ بدعتی ثابت ہوتے ہیں۔
جب بریلوی خود ہی اعتراف کر رہے ہیں کہ یہ تقلیدی سلسلے بالکل بدعت ہیں تو کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ شیخ عبدالقادر جیلانی کو بدعتی بن جانے کا حکم دیں؟!۔

مذکورہ بالا حوالے میں بریلویوں نے بیک وقت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بڈھا کہہ کر، نبی کریم ﷺ کو بدعت کا حکم دینے والا بتا کر اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کو بدعتی بنا کر ان عظیم المرتبت شخصیتوں کی شدید ترین توہین کی ہے جس کا ان بدعتیوں کو اللہ کے دربار میں جواب دینا ہوگا۔ان شاء اللہ