دیوبندی علماء ادب اور اخلاق کی انتہاؤں پر

یقیناًوہ تحریریں کبھی نہ کبھی آپ کی نظروں سے ضرور گزری ہونگی جن میں علمائے دیوبند ادب پر زور دار لیکچردیتے ہوئے پائے جاتے ہیں اورحقائق کے برعکس اہل حدیث کو بزرگان دین کا بے ادب اور ائمہ کا گستاخ بتاتے ہیں لیکن ادب شناسی اور اعلیٰ اخلاق کا تاج اپنے سر سجانا ہر گز نہیں بھولتے۔


اس وقت اہل حدیث کا دفاع یا ان کی بے گناہی ثابت کرنا ہمارا مقصد نہیں بلکہ دو رخ اور دو غلی پالیسی رکھنے والے دیوبندی علماء کا اصل اور حقیقی چہرہ آپ کو دکھانا مقصود ہے کہ کیا واقعی یہ لوگ اتنے ہی ادب شناس ہیں جتنا اپنے متعلق اس بات کا ڈھول پیٹتے اور پروپیگنڈہ کرتے ہیں؟

یہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی ہیں موصوف لڑکیوں کا ایک دینی مدرسہ چلا رہے ہیں اور امین اوکاڑوی کے تلمیذ رشید ہیں۔چونکہ استاد کے شاگرد کے کردار پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذا پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی (جو کہ باقاعدہ عالم نہیں تھا)کے ’’اعلیٰ اور بے مثال اخلاق‘‘ سے مولانا عبدالغنی اور دیگر شاگردوں نے وافر حصہ پایا ہے جس کا مظاہرہ یہ اکثر اوقات اہل حدیث کے خلاف کرتے نظر آتے ہیں۔استاد یعنی امین اوکاڑوی کی تحریروں میں بے حیائی، بے شرمی اور بد تہذیبی کے نادر اور نایاب نمونے جابجا بکھرے ہوئے ملتے ہیں جو ان کی اوباش طبیعت اور گندی ذہنیت کے آئینہ دار ہیں۔یہ نمونے ایسے ہیں کہ بیان کرنا تو دور کی بات رہی کوئی شریف آدمی انہیں اپنی نوک زبان پرلاتے ہوئے بھی ہزار بار سوچتا ہے۔

استاد کی طرح اس کے شاگرد بھی بے حیائی اور بدزبانی میں اپنے استاد سے کسی بھی طرح کم نہیں بلکہ استاد کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے بدزبانی، عریانی اور بازاری انداز میں استاد سے آگے نہیں تو کم ازکم اس کے برابر ضرور پہنچ گئے ہیں۔ عبدالغنی طارق کی شیریں اور ’’اخلاقی آداب ‘‘سے پوری طرح واقف زبان (جوکہ انہوں نے اپنے اسلاف سے ورثہ میں پائی ہے) کے جوہر کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے جس کے مطالعے کے بعد آپ کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں سہولت و آسانی ہوگی کہ اصل بے ادب اور گستاخ کون ہے۔

اہل الحدیث کی تضحیک کی آڑ میں نماز جیسے اسلامی شعار کا شرمناک طریقے سے مذاق اڑاتے ہوئے مولانا عبدالغنی طارق لدھیانوی (جنھیں مولانا کہنا بھی ہمارے نزدیک اہل علم کی شان میں کسی طور گستاخی سے کم نہیں) رقم طراز ہیں:۔
نماز جس کو عربی میں صلواۃکہتے ہیں۔ لغت میں اس کا معنی تحریک صلوین ہے.......جس کا مطلب سرین یعنی ہپس......جس میں قبل اور دبر کا سوراخ ہوتا ہے، اس کو حرکت دینا...... اس لغوی معنی کے لحاظ سے آج کل کی تمام رقاصائیں یعنی ڈانسر خواہ ان کا تعلق ہالی وڈ سے ہو، یا بالی وڈ سے ہو، یا لالی وڈ سے، وہ سب سے بڑی نمازی کہلائیں گی، اگر نرگس نے یہ چیلنج کر دیا کہ سب سے زیادہ نمازیں میں پڑھتی ہوں تو اس کے چیلنج کو توڑنا اہل حدیث کے بس کی بات نہیں رہے گی۔ اس لیے آپ کے علماء احسان الٰہی ظہیر، عبداللہ روپڑی، اثری، شمشاد سلفی، بدیع الدین پیر جھنڈا، نذیر حسین دھلوی، غزنوی وغیرہ کے گھر کی خواتین نے ساری زندگی کبھی نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوگ جب مسجد سے آکر پوچھتے کہ نماز؟ ان کی عورتیں بیٹھی بیٹھی سرین (ہپس) کو ہلا کر کہہ دیتیں کہ پڑھ لی....(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 48)۔

یاد رہے کہ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کی جس کتاب سے ہم نے یہ اقتباس بطور نمونہ نقل کیا ہے اس کتاب میں اس سے بھی بڑھکر کچھ اور نمونے ایسے موجود ہیں جنھیں شرم کے مارے قلم تحریر کرنے اور زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔غلاظتیں اگلتی ہوئی عبدالغنی طارق لدھیانوی کی یہ زبان اوکاڑوی کلچر کا تحفہ ہے۔اپنے استاد کی طرح موصوف بھی اہل حدیث دشمنی اور عداوت میں ہوش و خرد سے ایسے بیگانہ ہو ئے کا شرم وحیا کا چولہ بھی اتار پھینکااور خود بھی ننگے ہوئے اور اپنے باطل مذہب کو بھی بے لباس کر دیا۔

شاید دیوبندیوں کو مذکورہ بالا اقتباس اخلاق سے گرا ہوا نہ لگے کیونکہ جس فقہ پر یہ لوگ عمل پیرا ہیں اس میں تو اس سے کہیں بڑھ کر ایسے نمونے موجود ہیں جس سے بے حیائی بھی کچھ دیر کے لئے شرما جائے۔

مسلک دیوبند کا یہ سرتاج عالم جس سوقیانہ اور بازاری انداز میں دوسروں کی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کا ذکر کرتا ہے اس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے اپنے مدرسے میں زیر تعلیم اس کی اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر اس کی کیسی نظر ہوگی اور اپنے دل میں ان سے متعلق کیسے کیسے گندے خیالات لاتا ہوگا۔ ہم معذرت خواہ ہیں کہ دیوبندی علماء کے اخلاق کا ایسا نمونہ بوجہ مجبوری پیش کیا گیاو گرنہ ان لوگوں کی ادب شناسی ، احترام اور اخلاق کا پردہ چاک کرکے ان کے اصل مکروہ چہرے کو لوگوں کو دکھاناپیش نظر نہ ہوتا تو ہم اس اقتباس کو نقل کرنے کی ہرگز جراء ت نہ کرتے جس نے اخلاق اور حیاکی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔