امام ابوحنیفہ کا مبلغ علم


(تصویر کا ایک رخ)
حنفی مقلدین حضرات اپنے امام کے علم و فضل کو بیان کرتے ہوئے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ میری معلومات کی حد تک آج تک کوئی مقلد صحیح سند کے ساتھ ابوحنیفہ کی علمیت کو ثابت نہیں کر پایا اور صرف خالی باتوں سے ابوحنیفہ کو سب سے بڑا مجتہد اور سب سے بڑا فقہی ثابت کر نا چاہتا ہے۔ کیا محض باتوں سے بھی کبھی کچھ ثابت ہوا ہے ؟؟؟


(تصویر کا دوسرارخ)
 یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے جسے ہم اکثر بیشتر دیکھتے ہیں لیکن میں آپ کو تصویر کا دوسرا رخ احناف کی معتبر کتابوں سے دکھانا چاہتا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیں

احناف کی انتہائی معتبر کتاب قدوری میں لکھا ہے کہ ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی سال ہے۔ اسکے برعکس اللہ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

(اندھی تقلید)
 اب بجائے اسکے کہ حنفی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ اقرار کرتے کہ ہمارے امام سے غلطی ہوگئی ہے۔ الٹا اپنے امام کے اس خلاف قرآن فتوے کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شبیراحمد عثمانی دیو بندی صاحب اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ابو حنیفہ جو رضاعت کی مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں انکے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔

استغفراللہ اندھی تقلید کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ شبیر صاحب یہ بتانے میں ناکام رہے کہ وہ دلیل کہاں ہے جسکی بنیاد پر ابوحنیفہ نے یہ خلاف قرآن فتوی دیا ؟؟؟
صاحب ہدایہ نے قرآن کی آیت جس میں حمل اور رضاعت کی مدت کو جمع کرکے ڈھائی سال بیان کیا گیاہے۔ اس آیت کو ابوحنیفہ کی دلیل بتایا ہے اور اپنے امام کے ناجائز دفاع میں لغت کا سہارا لے کر حمل سے مراد بچے کو گود میں اٹھانا بتایا ہے۔ صاحب قدوری اور صاحب ہدایہ ابوحنیفہ کی اندھی تقلید میں یہ بھول گئے کہ قرآن کی تفسیر حدیث سے کی جاتی ہے لغت سے نہیں۔ حدیث کو چھوڑ کر لغت کا استعمال تو منکر حدیث کرتے ہیں۔


(تین فیصلہ کن صورتیں)
 اس بحث کا نتیجہ تین صورتوں میں نکلتا ہے جس میں سے کسی ایک صورت کو ماننا لازمی و ناگزیر ہے۔

پہلی صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابوحنیفہ نے پورا قرآن نہیں پڑھا تھا۔ اگر انہوں نے پورا قرآن پڑھا ہوتا تو انکی نظر سے یقیناًقرآن کا وہ مقام ضرور گزار ہوتا جہاں اللہ رب العالمین نے رضاعت کی مدت دو سال بیان فرمائی ہے۔

دوسری صورت میں اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابوحنیفہ نے پورا قرآن پڑھا تھا۔ تو مقلدین کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پورا قرآن پڑھنے کے باوجود بھی ابوحنیفہ نے جان بوجھ کر قرآن کے خلاف فتوی دیا۔

تیسری اور آخری صورت یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتابوں میں ابو حنیفہ سے منسوب یہ فتوی فقہ حنفی تحریر کرنے والوں کا جھوٹ ہے جو انہوں نے ابوحنیفہ کے ذمہ لگا دیا ہے۔

(فیصلہ آپ کے ہاتھ)
 پہلی صورت کو تسلیم کرنے کی صورت میں مقلدین کے پاس امام ابوحنیفہ کی تقلید کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ کیونکہ جس شخص نے قرآن بھی پورا نہ پڑھا ہو ،وہ امامت کا حق دار کیسے ہو سکتاہے؟

اگرحنفی مقلدین دوسری صورت کو قبول کرلیتے ہیں تو اپنے امام کی مخالفت قرآن کا کیا جواب دینگے؟ اوراس کے بعد کیا وہ اس قابل رہیں گے کہ دوسروں کو انکی تقلید کی دعوت دے سکیں؟

مقلدین کی طرف سے آخری صورت کو تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ فقہ حنفی جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہے۔ جس سے براءت واجب ہے۔

اب مقلدین حضرات بتا دیں کہ ان کو مذکورہ تین صورتوں میں سے کون سی صورت قبول ہے۔ اور اگر مقلدین حضرات کے نزدیک ان تین صورتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے تو برائے مہربانی مجھے آگاہ کردیں۔ مقلدین کی طرف سے جواب کا منتظر رہونگا۔

2 comments:

Muslim نے لکھا ہے

شاہد بھائی،

ایک ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے ایسا فرمایا ہی نہ ہو اور بعد کے کسی شاگرد نے ان کے ذمہ یہ ڈھائی سال رضاعت کا فتویٰ لگا دیا ہو، جس سے امام صاحب بری ہوں۔

دوسری ممکنہ صورت یہ بھی ہے کہ اگر یہ فتویٰ واقعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے دیا بھی ہو تو فتویٰ دیتے وقت قرآن کی یہ آیت ان کے ذہن میں نہ رہی ہو۔ جیسے کہ صحیح بخاری کی حدیث 5042 میں ہے کہ:


ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا ، کہا ہم کو علی بن مسہر نے خبردی ، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبردی ، انہیں ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قاری کو رات کے وقت مسجد میں قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ اس آدمی پر رحم کرے اس نے مجھے فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں جنہیں میں نے فلاں فلاں سورتوں میں سے چھوڑ رکھا تھا ۔

جس نبی پر قرآن نازل ہوا، اگر وہ کسی خاص وقت سورتوں کی کچھ خاص آیات کو بھول گئے تھے، تو ایسا ہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے بھی حسن ظن رکھا جا سکتا ہے۔

اسی طرح یہ دیکھئے کہ ابن حجر عسقلانی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں: ابن مسعود معوذتین کو اپنے مصحف میں لکھتے اور مٹادیتے تھے اور کہتے کہ یہ قرآن میں سے نہیں ہے ...حالانکہ معوذتین کے قرآن ہونے پر اجماع ہے اور اس بات پر بھی اجماع ہے کہ جو قرآن کے کسی ایک حرف کا انکار کرے کہ یہ قرآن نہیں، وہ کافر ہے۔ لیکن اس بنیاد پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ کافر نہیں قرار دیا جا سکتا تو ایک غلط فتوے کی بناء پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر بھی ایسا حکم لگانا تو ابعد ہے۔

آخر میں عرض ہے کہ مقلدین کی یہ روش بہرحال ہر لحاظ سے غلط ہے کہ ان کے اس غلط فتوے کو غلط ماننے کے بجائے اس کی حمایت میں قرآن و سنت سے کھرچ کھرچ کر دلائل کشید کرنے شروع کر دئے جائیں۔ اس کی خوب مذمت کی جانی چاہئے۔ لیکن مذمت اس حد تک ہی ہو، جتنی ہونی چاہئے، نا کہ موجودہ مقلدین کے رویے کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تک متعدی کر دیا جائے۔ واللہ اعلم۔

Unknown نے لکھا ہے

قرآن حکیم کی آیت میں ہے فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاح۔اگر مدت ۲ سال ہی ہے رضاعت کی پھر قرآن دودھ چھڑانے کے لیے تراض اور تشاور کا حکم کیوں دیا؟ جب مدت ہی ختم ہو گئی تو پھر کس بات کی مشاورت کرنی کہ دودھ چھڑایا جائے کہ نہ؟ اور پھر رضا مندی کی کیا ضرورت؟

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔