دیتے ہیں دھوکہ یہ بازیگر کھلا

اہل باطل ،اہل حدیث کے خلاف پروپیگنڈہ کے لئے جن چیزوں کو بنیاد بناتے ہیں ان کی حقیقت کھلنے پر احساس ہوتا ہے کہ یہ اونچی دکان کے پھیکے پکوان سے زیادہ کچھ نہیں۔جواعتراضات بظاہر بہت بڑے اور قوی محسوس ہوتے ہیں انکی اصلیت سے پردہ ہٹنے کے بعدوہ اتنے ہی بے حقیقت، بے وقعت اور بے معنی نظر آتے ہیں۔اہل باطل کے اسی طرح کے ایک دھوکے کو ہم نے زیر نظر مضمون میں اللہ رب العالمین کی توفیق سے بے نقاب کرنے کی سعی کی ہے۔ 

مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا: پچیس برس کے تجربہ سے ہم کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جو لوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور تقلید مطلق کے تارک بن جاتے ہیں وہ آخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتے ہیں۔(اشاعۃ السنۃ،صفحہ 88، جلد 11) ۔

چونکہ مذکورہ عبارت عام مقلدین بالخصوص مسلک اہل حدیث سے تعصب اور بغض رکھنے والوں کے لئے نہایت پرکشش تھی اسی لئے اس مرغوب حوالے کو غالی مقلدین کی جانب سے تقلید کی اہمیت اور ترک تقلید کے نقصان میں بکثرت نقل کیا گیا ہے جیسے: 

۔01۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی کی کتاب تجلیات صفدر،جلد اول کے صفحہ 615 پر
۔02۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی کی کتاب اختلاف امت صراط مستقیم کے صفحہ 30 پر
۔03۔ صوفی منقار شاہ دیوبندی کی کتاب وھابیوں کا مکر و فریب کے صفحہ 62 پر
۔04۔ ابو بلال جھنگوی کی کتاب تحفہ اہل حدیث کی ہر جلد کے آخری ٹائٹل پر
۔05۔ سیدفخر الدین احمد دیوبندی کی کتاب رفع یدین صحیح بخاری میں پیش کردہ دلائل کی روشنی میں کے صفحہ نمبر 5پر
۔06۔ صوفی محمد اقبال قریشی دیوبندی کی کتاب ھدیہ اھلحدیث کے صفحہ 239 پر
۔07۔ مولانا محمد شفیع دیوبندی کی کتاب مجالس حکیم الامت کے صفحہ 242 پر
۔08۔ سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب الکلام المفیدفی اثابت التقلید کے صفحہ 183پر
۔09۔ محمد زید مظاہری ندوی دیوبندی کی کتاب اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ کے صفحہ 104 پر
۔10۔ رشید احمد گنگوہی دیوبندی کی کتاب سبیل السدادمیں

افسوسناک امر یہ ہے کہ متذکرہ بالا تمام احباب نے من مانی کرتے ہوئے مولانا محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت میں موجود لفظ’’ تقلید مطلق ‘‘سے تقلید شخصی کا من چاہا معنی مراد لیا ہے حالانکہ تقلید مطلق سے تقلید شخصی مراد لینے کی کوئی معقول وجہ یا قرینہ بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت میں سرے سے موجود نہیں۔ یوسف لدھیانوی دیوبندی مولانا بٹالوی رحمہ اللہ کی تقلید مطلق سے متعلق عبارت کو نقل کرنے کے بعد بغیر کسی قرینے اور شاہد کے اس سے الٹا اور برعکس مطلب و نتیجہ اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی ہوگی کہ عامی آدمی کو ایک معین امام کی تقلید ہی کیوں ضروری ہے؟ (اختلاف امت اور صراط مستقیم، صفحہ 31) ۔

تقلید مطلق کو اپنی مطلب برآوری کے لئے بلاوجہ تقلید شخصی بنا دینا یوسف لدھیانوی جیسے دیانت و امانت کے دشمن دیوبندیوں کا ہی کام ہے!!!جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا عام آدمی کے لئے توبرا اور قابل مذمت فعل ہے ہی لیکن جب یہی ناجائز اور برا فعل ایک عالم دین کہلاوانے والے شخص سے جان بوجھ کر سرزد ہو تو اسکی مذمت اور برائی شدید ترہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات ان تقلید کی بیماری میں مبتلا علما ئے سوء کو سمجھ میں آجائے تو یہ لوگ عوام الناس کو دغا دینے جیسے قبیح عمل سے تائیب کیوں نہ ہوجائیں؟!! 

چونکہ دھوکہ دہی، دغابازی، غلط بیانی، مغالعہ انگیزی اور کذب بیانی جیسے افعال تقلید کی گندی کوکھ میں ہی پرورش پاتے ہیں اس لئے تقلید اور ان مکارم اخلاق چیزوں کاچولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں کہ ایک شخص مقلد ہو اور وہ اپنے مذہب کے دفاع کے لئے جھوٹ نہ بولے اور لوگوں کو مبتلائے دھوکہ نہ کرے۔ بہرحال محمد حسین بٹالوی مرحوم کی عبارت اپنے مفہوم پر واضح اور دو ٹوک ہے جس سے مقلدین کا اپنے مطلب کا خود ساختہ معنی و مفہوم مراد لینے کی اس کے علاوہ کوئی معلوم وجہ نہیں کہ حق و باطل کو خلط ملط کرکے اپنے جاں بلب مذہب میں کچھ جان پھونکی جائے۔ 

اس بحث کومزید بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ تقلید کی اقسام اور انکی تعریف متعین و معلوم کر لی جائے۔تقلید کی دو اقسام ہیں جن میں ایک کوتقلید شخصی یا معین تقلید اور دوسری تقلید غیر شخصی یا تقلید مطلق کہا جاتا ہے۔حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تقلید کی ان اقسام کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں: 

۔1۔ تقلید غیر شخصی (تقلید مطلق)۔

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد) بغیر کسی تعین وتخصیص کے غیر نبی کی بے دلیل بات کو آنکھیں بند کرکے، بے سوچے سمجھے مانتا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقلید مطلق کی اس تعریف کی تائید تقی عثمانی دیوبندی کی اس وضاحت سے بخوبی ہوتی ہے: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121) ۔

اپنی ایک اور تصنیف میں تقی عثمانی صاحب تقلید مطلق کی تعریف ایسے کرتے ہیں: پھر اس تقلید کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ تقلید کے لئے کسی خاص امام و مجتہد کو معین نہ کیا جائے، بلکہ اگر ایک مسئلہ میں ایک عالم کا مسلک اختیار کیا گیا ہے تو دوسرے مسئلہ میں کسی دوسرے عالم کی رائے قبول کرلی جائے اس کو ’’تقلید مطلق‘‘ یا ’’تقلید عام‘‘ یا ’’تقلید غیر شخصی‘‘ کہتے ہیں۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

پس معلوم ہوا کہ متعین کئے بغیراپنی مرضی سے کسی بھی امتی کی تقلید کر لینا ہی تقلید مطلق ہے۔ 

۔2۔ تقلید شخصی

اس میں تقلید کرنے والا (مقلد)تعین و تخصیص کے ساتھ، نبی ﷺ کے علاوہ کسی ایک شخص کی ہر بات (قول وفعل)کو آنکھیں بند کرکے،بے سوچے سمجھے اندھا دھند ماننا ہے۔(دین میں تقلید کا مسئلہ، صفحہ 22) ۔

تقی عثمانی دیوبندی تقلید شخصی کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لئے کسی ایک مجتہد عالم کو اختیار کیا جائے، اور ہر مسئلہ میں اسی کا قول اختیار کیا جائے، اسے ’’تقلید شخصی‘‘ کہا جاتا ہے۔(تقلید کی شرعی حیثیت،صفحہ15) ۔

ملا جیون حنفی لکھتے ہیں: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چار وں اماموں کی اتباع کی جائے گی۔(تفسیرات الاحمدی،صفحہ 566) ۔

اس عبارت میں تقلید کے لئے صرف چار اماموں کا تعین و تخصیص ہی تقلید شخصی کی مثال ہے۔یاد رہے کہ ان چاروں میں سے ایک وقت میں صرف ایک ہی کی تقلید آل تقلید کے ہاں ضروری اور واجب ہے ۔جیسے خلیل احمد سہانپوری لکھتے ہیں: اس زمانے میں نہایت ضروری ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کی جائے بلکہ واجب ہے۔(المہند علی المفند،صفحہ38) ۔

تقلید کی ہر دو اقسام کی تعریف کے تعین پر فریقین کے اتفاق سے یہ تفصیل سامنے آئی کہ ائمہ اربعہ میں سے صرف ایک امام کی تقلید، تقلید شخصی ہے اور ائمہ اربعہ یا ان کے علاوہ ائمہ میں سے کسی مخصوص امام کا تعین کئے بغیر بلادلیل جس سے جو چاہا مسئلہ لے لینا اور اس پر عمل کرنا تقلید مطلق ہے۔ 

مندر جہ بالا تفصیل سے تقلید شخصی اور تقلید مطلق کا فرق واضح ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت ابوحنیفہ کی اندھی تقلید کے دعویداروں کے سراسر خلاف جاتی ہے کیونکہ ان مقلدین کے ہاں مطلق تقلید حرام اور موجب گمراہی جبکہ تقلید شخصی واجب ہے۔ اب مخالفین کے اپنے مستند علماء کی عبارات کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو بٹالوی مرحوم کی عبارت کو اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں وہ تقلید شخصی اور تقلید مطلق کو کیا حیثیت و اہمیت دیتے ہیں اور تقلید کی ان دو اقسام میں سے کون سی تقلید ان کے ہاں صحیح اور کونسی غلط بلکہ موسبب فتنہ و گمراہی ہے۔ 

۔1۔ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی تقلید شخصی کی ضرورت اور تقلید مطلق کے نقصان کی وضاحت میں رقم طراز ہیں: علماء نے تقلید شخصی کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر عامی آدمی کو اس کی اجازت دی جائے کہ اس کو اختیار ہے کہ کسی امام کے مذہب کو لے کر وہ اس پر عمل کر لے تو اس صورت میں رخصت اور آسانی تلاش کرے گا ۔اس کا دل چاہے گا تو ایک چیز کو حلال کہے گا اور کبھی خیال بدل گیا تو وہ اسی کو حرام کہے گا کیونکہ ائمہ اربعہ میں بعض احکام میں حلت و حرمت کا اختلاف ہے۔(تجلیات صفدر، جلد اول، صفحہ 655) ۔

پس امین اوکاڑوی دیوبندی کی اس عبارت سے ثابت ہوا کہ مقلدین کے ہاں تقلید مطلق سراسر گمراہی ہے۔لیکن اس کے باوجود بھی آل تقلید کی ستم ظریفی اوردھوکہ دہی ملاحظہ فرمائیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کی جو عبارت براہ راست خود ان کے تقلیدی مذہب کے خلاف تھی اسی عبارت کو کس دیدہ دلیری سے انہوں نے اپنے مخالفین یعنی تقلید نہ کرنے والوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ 

۔2۔ اشرف علی تھانوی کے اس کلام میں بھی تقلید مطلق کے باعث فساد ہونے کا واضح اشارہ موجودہے: تقلید شخصی ضروری ہے اور مختلف اقوال لینا متضمن مفاسد ہے۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 78) ۔

۔3۔ تقی عثمانی دیوبندی عوام الناس کو مطلق تقلید سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں: صرف ایک امام کی تقلید لازم و ضروری بلکہ واجب ہے،کبھی کسی کی اور کبھی کسی اور کی تقلید کی تو گمراہ ہوجائے گا اور دین کھلونا بن جائے گا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 120) ۔

۔4۔ نور محمد قادری تونسوی دیوبندی تقلید مطلق کودین و مذہب کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے رقم طراز ہیں: کوئی مسئلہ کسی امام کا اور کوئی کسی کا ،لے کر چلنابھی درحقیقت امام کی اتباع کے نام پر اتباع خواہش ہے جو آدمی کے دین اور ایمان کے لئے خطرے کا سنگ میل ہے۔(سہ ماہی قافلہ حق،شمارہ نمبر7، صفحہ 9)۔

۔5۔ تقی عثمانی صاحب ایک اور مقام پر رقم طراز ہیں: ابتداء میں صرف تقلید مطلق ہی تھی جو کوئی جس کی چاہتا تقلید کر لیتا تھا آخر اس میں قباحتوں نے جنم لینا شروع کیا یا اس کا خدشہ تھا۔(درس ترمذی، جلد اول، صفحہ 121)۔

درج بالا حوالے میں وہ کون لوگ ہیں جو ابتداء میں تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے اس کی وضاحت کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں: مذکورہ مثالیں تو تقلید مطلق کی تھیں یعنیٰ ان مثالوں میں صحابہ و تابعین نے کسی فرد واحد کو معین کرکے اس کی تقلید نہیں کی بلکہ کبھی کسی عالم سے مسئلہ پوچھ لیا اور کبھی کسی اور سے۔(تقلید کی شرعی حیثیت، صفحہ 43) ۔

بقول مقلدین تقلید مطلق پہلے جائز تھی ا س لئے کے اس میں خیر تھی کیونکہ ان کے خیال سے صحابہ تقلید مطلق پر عمل پیرا تھے لیکن اب اس میں سوائے شر کے اور کچھ نہیں ۔مطلب یہ کہ موجودہ زمانے میں تقلید شخصی چھوڑ کر تقلید مطلق اختیار کر لینا یقینی گمراہی کا سبب ہے۔ 

مندرجہ بالا دلائل سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ دیوبندیوں نے صرف شعبدہ بازی سے کام لے کر تقلید مطلق سے تقلید شخصی کشید کرنے کی ناکام کوشش کی ہے وگرنہ پیش کردہ اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت سے اظہر من الشمس ہے کہ تقلید مطلق کو ترک کرنے والا بالآخر گمراہ ہوجاتا ہے اس کے برخلاف و برعکس آل تقلید کے نزدیک تقلید مطلق کو اختیار کرنے والاگمراہ ہوجاتا ہے۔اس زبردست تضاد واختلاف کے باوجود بھی مقلدین کا ایک ایسی عبارت کو جو ان کے تقلید ی نظریہ کے خلاف ہے، سینہ زوری کرتے ہوئے اپنے حق میں استعمال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہ لوگ دیانت و امانت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس بات سے بھی بالکل بے خوف ہیں کہ انکی کھلی دغابازی کا پول کھلنے پر انہیں شرمندگی اور ندامت بھی اٹھانی پڑ سکتی ہے۔یہ حضرات شاید اہل حق کو بھی تقلیدی بیماری کے شکار لوگوں کی طرح اندھا اور بہرا جاننے کی شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔

اسی طرح جہاں تک اہل حدیث عالم محمد حسین بٹالوی مرحوم کی( مقلدین کی جانب سے نقل کر کے اہل حدیث ہی کے خلاف پیش کی جانے والی) عبارت میں مجتہد مطلق کے تارک بننے کو ناپسندیدہ اور گمراہی کا سبب بتایا گیا ہے تو یہ بات بھی آل تقلید کے حق میں نہیں بلکہ ان کے خود ساختہ مذہب کے خلاف ہے کیونکہ انکے ہاں مطلق مجتہد کے بجائے مخصوص اور متعین مجتہدین سے چمٹے رہنا اور انکی اندھی تقلید کرتے رہنا ہی واجب ہے جنھیں ائمہ اربعہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے یعنی امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابوحنیفہ ۔ احناف کی انتہائی معتبر کتاب مسلم الثبوت میں مندرج ہے: عوام الناس بحث اور تحقیق نہیں کرسکتے تو ان پر چار اماموں کی تقلید لازمی ہے جو تحقیق کر چکے ہیں۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

صاوی نے سورہ کہف کی تفسیر میں لکھا ہے: چار مذاہب کے علاوہ کسی کی تقلیدجائز نہیں۔ 

مقلدین نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے صرف ائمہ اربعہ کی تقلیدکے واجب ہونے پر اجماع کا خود ساختہ دعویٰ بھی کردیا ہے۔چناچہ ملاجیون حنفی نے لکھا ہے: اس بات پر اجماع ہے کہ صرف چاروں اماموں کی اتباع کی جائے۔(تفسیرات الاحمدی، صفحہ 566) ۔

قارئین سے عرض ہے کہ زرا ایک مرتبہ پھر آغازمضمون میں نقل کی گئی بٹالوی مرحوم کی عبارت کو بغور پڑھیں اور دیکھیں کہ بٹالوی رحمہ اللہ کے نزدیک تو مطلق مجتہد سے تعلق توڑنے والا بالآخر اسلام کو ہی سلام کر بیٹھتا ہے جبکہ آل تقلید کے ہاں مطلق مجتہد سے تعلق جوڑنے والا گمراہی کی وادیوں میں گم ہوجاتا ہے کیونکہ ان کے ہاں مطلق مجتہد کی تقلید اختیار کرنا اجماع کی مخالفت اور واجب کا انکارہے۔تقلید ی حضرات اپنے خود ساختہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی اور کو تو دور کی بات کسی صحابی کو بھی واجب الاتباع و تقلید ماننے کو تیار نہیں۔ 

مسلم الثبوت میں لکھا ہے: محققین کا اس پر اجماع ہے کہ عامتہ المسلمین صحابہ کرام کی تقلید اور اتباع نہیں کرینگے کیونکہ بسا اوقات ان کے اقوال واضح نہیں ہوتے۔(مسلم الثبوت: 2/407 ) ۔

احناف کے اس اصول میں مجتہدین اربعہ سے کروڑہا درجے بہتر اور علم وفضل، نیکی وتقوی اور قر آن و حدیث کی معرفت اور فقاہت میں افضل ترین مجتہد صحابہ کرام کی واضح تنقیض اور توہین پائی جاتی ہے اور اس پر متزاد انکے بزرگان دین کے ادب و احترام کے کھوکھلے بلند و بانگ دعوے!!! احناف کے ان مسلمہ اصولوں کے بعد انہیں بٹالوی رحمہ اللہ کی عبارت کو اہل حدیث کے خلاف پیش کرتے ہوئے ہزار بار شرمانا چاہیے تھاکیونکہ مذکورہ عبارت خود احناف ہی کے خلاف ہے۔ لیکن آہ!شرم تم کو مگر نہیں آتی 

محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ کی زیر بحث عبارت کے دیگر جوابات کے لئے تحفہ حنفیہ بجواب تحفہ اہل حدیث از محمد داود ارشد اور صراط مستقیم اور اختلاف امت بجواب اختلاف امت صراط مستقیم از مولانا صغیر احمد بہاری رحمہ اللہ کی مراجعت فرمائیں۔

اجارہ داری

ایک وقت تھا جب اہل سنت والجماعت کے لفظ پر بریلویوں کی اجارہ داری تھی۔ یہ اجارہ داری انہیں ایک طویل پروپیگنڈے سے حاصل ہوئی تھی جسکا ایک بہت بڑا فائدہ انہیں یہ حاصل تھا کہ کسی بھی کتاب سے اہل سنت کا لفظ دکھا کر اپنی عوام کو باآسانی یہ تسلی دے لیتے تھے کہ کتاب میں یہ بات یا بشارت بریلویوں کے حق میں ہے کیونکہ صرف بریلوی ہی بلا شرکت غیرے اہل سنت والجماعت ہیں۔ 

بریلویوں کی پیدائش سے بھی بہت پہلے سلف صالحین نے صرف اہل حدیث ہی کو اہل سنت والجماعت کہا ہے۔لیکن ایک تو اہل حدیث حضرات نے اس بریلوی پروپیگنڈہ کا بھرپور مقابلہ بھی نہیں کیا اور دوسرا ان کی تعدادبھی بریلویوں کے مقابلہ میں نہایت قلیل ہونے کی وجہ سے کسی نے ان کی بات پر کان نہیں دھرا۔ بریلویوں کی اس اجارہ داری پر کاری ضرب اس وقت لگی جب دیوبندیوں نے بھی خود کو اہل سنت والجماعت کہنا اور لکھنا شروع کیا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں ، میں نے خود سنی تحریک کے سربراہ کو سپاہ صحابہ کے ذمہ دار سے یہ شکوہ کرتے ہوئے سنا کہ جب یہ بات مشہور و معروف ہے کہ صرف بریلوی ہی خود کو اہل سنت والجماعت کہلواتے ہیں تو دیوبندیوں کو خود کو اہل سنت والجماعت کہلوانے اور اپنی جماعت کے ساتھ اس لفظ کو لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ جس پر دیوبندی عالم کے بجائے اینکر نے جواب دیا کہ اہل سنت والجماعت کا لفظ کسی خاص جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اس لئے بریلویوں کا یہ شکوہ بھی درست نہیں۔ 

اب صورت حال یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت کے لفظ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں دیوبندی اور بریلوی دونوں آتے ہیں۔ اب بریلویوں کو کسی کتاب میں موجود اہل سنت والجماعت سے متعلق بشارت کو اپنے اوپر فٹ کرنے سے پہلے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ دیوبندی جو خود کو اہل سنت والجماعت کہتے ہیں ان کی نسبت اہل سنت والجماعت سے درست نہیں۔ اہل سنت والجماعت کے لفظ پر دیوبندیوں نے بریلویوں کے لئے مقابلہ کی فضا پید ا کردی ہے جو کہ ان کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔ 

اس طویل گزارشات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی خاص جماعت کا کسی خاص لفظ یا اصطلاح پر اجارہ داری کا ان کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ اور وہ جماعت بلا مقابلہ ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اس اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے اس کی مخالف جماعت بھی اسی لفظ سے نسبت کا دعوی ٰ کرکے اس کے لئے عظیم مشکلات کھڑی کر کے اس کے فوائد کو ختم کردے۔ جیسے ایک دیوبندی عالم عبدالجبار سلفی صاحب نے ایک کتاب لکھی جسکا عنوان ہے : سلفی کون؟ حنفی یا غیر مقلد ۔اس کتاب میں مصنف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ سلفی کا مطلب ہے سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والا اور اس لفظ کے صحیح حقدار حنفی ہیں ناکہ غیر مقلد جو خود کو اہل حدیث کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ تو کسی کے نقش قدم پر چلنے کے بجائے دین میں اپنی مرضی چلاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں دیوبندی و بریلوی حضرات بھی خود کو اہل حدیث، سلفی، اثری اور محمدی وغیرہ کہلاوانا شروع کردیں۔ 

کسی خاص اصطلاح یا نام سے کسی جماعت کو کتنا فائدہ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب حنفیوں نے اہل حدیث سے متعلق سلف صالحین کی بشارتیں اور گواہیاں پڑھیں توانہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ اہل حدیث لفظ سے اہل حدیث کا رشتہ کاٹ کر عوام کو دھوکہ دیا جائے اس ناپاک مقصد کے لئے پہلے انھوں نے اہل حدیث کے لئے غیرمقلد کا لفظ مشہور کیا اور اہل حدیث لفظ میں یہ تاویل کی کہ اہل حدیث سے مراد محدثین ہیں آج کل کے نام نہاد اہل حدیث جو کہ اصل میں غیر مقلد ہیں اس سے مراد نہیں۔اس تاویل سے یہ لوگ عام طور پر عوام الناس کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ اب یہ اہل حدیث کی ذمہ داری ہے کہ حنفیوں کے اس باطل پروپیگنڈے سے مقابلے کے لئے وہ باربار اپنی تقریروں اور تحریروں میں لوگوں کو یہ بتائیں کہ غیر مقلد کا لفظ حنفیوں کا ایجاد کردہ ہے اور ہم غیر مقلد نہیں بلکہ اہل حدیث ہیں۔ 

کسی لفظ پر اجارہ داری کی اس اہمیت کے پیش نظر حنفیوں کے ایک لفظ پر اجارہ داری کا جائزہ لیتے ہیں جو وہ اپنے امام کے لئے مخصوص کر کے لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی اس لئے بھی تقلید کرنی چاہیے کہ وہ سب سے بڑے امام یعنی امام اعظم ہیں۔ یعنی کوئی بھی دلیل پیش کئے بغیر وہ صرف امام اعظم کا لاحقہ ابوحنیفہ کے نام کے ساتھ لگا کر عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا چکے ہیں کہ علم، تقوی اور فضیلت میں ابوحنیفہ سے بڑھکر کوئی نہیں۔ 
اس کو کہتے ہیں ۔ہلدی لگے نہ پھٹکری، رنگ چوکھا 

اب سے کچھ عرصے پہلے تک میں خود اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل) کے مقلدین بھی ابوحنیفہ کے امام اعظم ہونے پر متفق ہیں۔ 

ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ امام اعظم کا لفظ صرف امام ابوحنیفہ کے لئے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کے دعوے دار دوسرے لوگ بھی ہیں۔ اب حنفیوں کو یہ فیصلہ کرکے بتانا پڑے گا کہ ان میں سے اصلی اور حقیقی امام اعظم کون ہے۔ اس کے لئے حنفیوں کو دلائل بھی دینے پڑینگے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جب دلائل کی باری آئے گی تو چاروں اماموں میں ابوحنیفہ کا نمبر سب سے آخر میں آئے گا۔یہ بھی ممکن ہے کہ نمبر بھی نہ آئے بلکہ اماموں کی لسٹ سے ہی خروج ہو جائے۔ 

حنفیوں کی طرح شافعی حضرات بھی اپنے امام کو امام اعظم کہتے ہیں: ۔

 تاج الدین عبدالوہاب بن تقی الدین السبکی نے کہا: محمد بن الشافعی: امامنا، الامام الاعظم المطلبی ابی عبداللہ محمد بن ادریس۔۔۔۔۔۔ (طبقات الشافعیۃ الکبریٰ ج۱ ص۲۲۵، دوسرا نسخہ ج۱ ص۳۰۳) ۔

 احمد محمد بن سلامہ القلیوبی (متوفی ۱۰۶۹ھ) نے کہا: قولہ (الشافعی) : ھو الامام الاعظم
(حاشیۃ القلیوبی علیٰ شرح جلال الدین المحلی علیٰ منہاج الطالبین ج۱ ص۱۰، الشاملۃ) 

قسطلانی (شافعی) نے امام مالک کو الامام الاعظم کہا۔
(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری ج۵ ص۳۰۷ ح ۳۳۰۰، ج۱۰ ص۱۰۷ ح ۶۹۶۲) 

 قسطلانی نے امام احمد بن حنبل کے بارے میں کہا: الامام الاعظم 
(ارشاد الساری ج۵ ص۳۵ ح ۵۱۰۵) 

 حافظ ابن حجر عسقلانی نے مسلمانوں کے خلیفہ (امام) کو الامام الاعظم کہا۔
(فتح الباری ۳/۱۱۲ ح ۷۱۳۸) 

اب دیکھتے ہیں کہ حنفی امام ابوحنیفہ کی طرف الامام الاعظم کی نسبت سے دستبرداری اختیار کرتے ہیں یا دلائل کا مشکل ترین راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا، آگے آگے دیکھئے ہوتے ہے کیا