حنفی حمام میں دیوبندی اور بریلوی دونوں ننگے

ایک شخص اپنے سگے بھائی کو ماں کی گالیاں دے رہا تھاایک عقلمند نے اسے سمجھایا کہ تو اپنی ماں کو کیوں گالیاں دے رہا ہے؟ اس شخص نے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں اپنی ماں کو نہیں بلکہ اس کی ماں کو گالیاں دے رہاہوں۔ اس بھلے مانس نے انہیں سمجھایا کہ تم دونوں کی ماں ایک ہی ہے اور ایک کا دوسر ے کی ماں کو گالیاں دینا اصل میں اپنی ہی ماں کو گالیاں دینا ہے۔ 

ہمیں نہیں معلوم کہ اس بھلے مانس کی بات اس بھائی کو سمجھ میں آئی یا نہیں۔ لیکن یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ اسی عادت بد میں مبتلا دیوبندیوں اور بریلویوں کو یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں کیونکہ یہ باتیں انہیں سمجھ میں آتیں ہیں جن کا دماغ تقلید کی لعنت سے بالکل ہی بیکار اور کنڈم نہ ہو گیا ہواور جن لوگوں میں کچھ غیرت اور شرم باقی ہو لیکن جن کا کشکول حیا اور غیرت سے بالکل ہی خالی ہوگیا ہو وہ یہ معقول باتیں سمجھنے سے بالکل قاصر رہتے ہیں اور انہیں کو توحنفی کہا جاتا ہے۔ 


مذکورہ بالامثال دیوبندیوں اور بریلویوں پر بالکل صادق آتی ہے جو اپنے ہی خود ساختہ امام اعظم کی فقہ کے حیا سوز اورسیکسی مسائل کسی دیوبندی یا بریلوی عالم کی طرف سے صرف کتاب میں نقل کئے جانے کی وجہ سے اس عالم کو مطعون کرتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ بریلویوں اور دیوبندیوں کی اسی بے حیائی اور بے غیرتی کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں جن کے ذریعے یہ دونوں گندے فرقے نہ صرف یہ کہ خود مذاق کا نشانہ بنتے ہیں بلکہ لگے ہاتھوں اپنے ’’امام اعظم‘‘ ابوحنیفہ کو بھی اتنی گندی اور سیکسی فقہ کی تخلیق پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دل کھول کر گالیوں سے نوازتے ہیں۔ 

۔۱۔ حق(باطل) فورم پر مجذوب صاحب ایک مضمون لکھتے ہیں جس کا عنوان ہے: بریلوی حج کرتے وقت بھی مشت زنی کرتے ہیں۔ اس مضمون میں مجذوب صاحب (سابقہ کالا حضرت) الیاس قادری صاحب کی کتاب رفیق الحرمین کا اسکین پیش کرتے ہیں جس کے صفحہ ۲۴۴ پر ایک سوال کہ اگر خدانخواستہ کوئی محرم مشت زنی کا مرتکب ہوا تو کیا کفارہ ہے؟ کے جواب میں الیاس قادری (پادری) صاحب فرماتے ہیں: اگر انزال ہوگیا تو دم واجب ہے ورنہ مکروہ........(رفیق الحرمین ص۲۴۴)۔

اس سوال و جواب پر مجذوب صاحب اس طرح تبصرہ فرماتے ہیں:
 کیا ہم ایسے گندے مذہب پر لعنت نہ بھیجیں جس کے ماننے والے حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی مشت زنی کی مشق کرتے ہیں۔ 

اگردیوبندی مجذوب صاحب تھوڑی سی عقل رکھتے تو اس بریلوی حوالے پر ہرگز اس طرح کا تبصرہ نہ فرماتے کیونکہ حنفی حمام میں دونوں ننگے ہیں۔ بریلوی کو ننگا کرنے کا مطلب ہے کہ دیوبندی کا خود ننگا ہوجانا۔ خیر! اگر مجذوب صاحب میں عقل ہوتی تو مجذوب کیوں ہوتے؟! 

یہاں تو مجذوب صاحب حج کے موقعے پر صرف مشت زنی کا رونے رورہے ہیں دوسری طرف ان کے ’’امام اعظم‘‘ نے اپنی فقہ میں جو گل کھلائے ہیں اس سے تو شرم بھی شرما گئی ہے۔پڑھیے اور اپنے امام اور اپنی فقہ پر ہزارہا لعنت بھیجئے۔ 

اگر وہ جانور کے پاس آئے اور اس میں داخل کرے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہاں اگر انزال ہو جائے تو اس پر قربانی واجب ہوگی اور اس کا حج فاسد نہیں ہوگا۔(فتاویٰ عالمگیری باب۸ فصل ۴ ص ۴۴۲) ۔

عورت کو دیکھا یا کسی کا تصور کیا یا مشت زنی کی اور منی خارج ہوئی تو ان سب صورتوں میں اس کا روزہ نہیں ٹوٹے گا۔(ہدایہ ج ۱ ص ۱۷۷ کتاب الصوم) ۔

مجذوب صاحب، بریلوی عالم کا نام لے کر جس گندے مذہب پر لعنت بھیج رہے ہیں کیا وہ یہی مذہب نہیں جو مجذوب صاحب کے مقدس امام ابوحنیفہ نے فقہ حنفی کے نام پر اپنے گھر میں گھڑا تھا۔ مجذوب صاحب کی اصل لعنت کا مستحق بریلوی عالم ہے یا اس بریلوی عالم سے بھی زیادہ گندہ مسئلہ پیش کرنے والا ان کا امام اور انکا حنفی مذہب؟!! ۔

یہاں ہم دیوبندیوں اور بریلویوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ کیا اس طرح کے فتوے دینے کا مطلب یہ نہیں کہ حنفی فقہاء اور حنفی مذہب کے بانی روزہ اور حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے وقت بھی 
مشت زنی کرتے اور جانوروں سے منہ کالاکروایا کرتے تھے؟؟؟!!! ۔

۔۲۔ بریلویوں کے فورم ’’اسلامی محفل‘‘ پر کواکھانا کیسا؟؟؟ کے عنوان سے ایک ممبر ’’اقرا‘‘ نے ایک تھریڈ شروع کیا جس کی بنیاد دیوبندیوں کی معتبر کتاب تذکرۃ الرشید کی عبارت کہ’’ کوا کھانا جائز ہے‘‘ کو بنایا گیاہے۔اور دیوبندیوں کو کوا خور قرار دیتے ہوئے خوب گالیوں سے نوازا گیاہے۔ حالانکہ جاہل بریلویوں کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کوا کھانے کا فتویٰ دیوبندی مولوی نے خود نہیں گھڑا بلکہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے مشترکہ امام، ابوحنیفہ صاحب نے یہ نادر مسئلہ خود فقہ حنفی میں درج کروایا ہے۔ملاحظہ کریں: ۔
اگر کوا وہ ہو جو گندگی کھاتا ہے اور کبھی دانے تو حضرت اما م ابو یوسف سے روایت ہے کہ وہ مکروہ ہے کیونکہ اس میں حلت اور حرمت کے دونوں موجب جمع ہو چکے ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت ہے کہ اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور یہی صحیح ہے ۔مرغی پر قیاس کرتے ہوئے کیونکہ اس کے کھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔(مبسوط سرخسی ص ۲۲۶ ج۱۱) ۔

جاہل بریلویوں کی نظر سے انکے مذہب کی کتاب انوارشریعت بھی نہیں گزری جس میں اس مسئلہ کو اس طرح درج کیا گیا ہے: جو (کوا) دانہ بھی کھاتا ہے اور مردار بھی کھاتا ہے جس کو عربی میں عقعق کہتے ہیں وہ امام صاحب کے نزدیک حلال ہے لیکن صاحبین کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور اول قول مفتی بہ ہے۔(انوارشریعت جلددوم ص۱۹۹) ۔

بریلوی جب خود یہ اقرار کر رہے ہیں کہ ابوحنیفہ کے نزدیک کوا حلا ل ہے اور یہی حنفی مذہب میں مفتی بہ قول ہے تو اگر ابوحنیفہ کے اسی مذہب کو رشید احمد گنگوہی نے اپنی کتاب تذکرۃ الرشید میں نقل کردیا تو اس پر رشید احمد گنگوہی کو گالیا ں دینے یا دیوبندیوں کو کوا خور کہنے کا کیا فائدہ ؟! شیشے کے گھر میں بیٹھ کردوسروں پر پتھر پھینکنا تو انتہائی بے وقوفی ہے۔ اگر تمہیں کوا کھانا اتنا ہی برا اور قابل ملامت لگتا ہے تو یہ لعنت ملامت دیوبندیوں پر نہیں بلکہ اپنے امام اعظم ابوحنیفہ پر فرمائیے۔ اور انہیں ننگی ننگی گالیاں دے کر اپنا دل ٹھنڈا کیجئے کیونکہ یہ فتوی اصل میں کسی دیوبندی یابریلوی کا نہیں بلکہ ابوحنیفہ کا ہے جوحرام خور کوے کا گوشت بہت پسند فرماتے تھے۔ 

یہ وہ حنفی حمام ہے جہاں ابوحنیفہ نے دیوبندیوں کے ساتھ بریلویوں کو بھی ننگا کر دیا ہے۔ 
لہذاابوحنیفہ اور حنفی فقہاء کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور بریلوی بھی کوا خور ہیں۔یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ 

دیکھا آپ نے! دیوبندی اور بریلوی دونوں فقہ حنفی کو ماننے والے ہیں اور اگر کسی اہل حدیث کی طرف سے ان کی فقہ کے مسائل پر کوئی جائز اعتراض ہو تو دونوں جواباً قرآ ن اور حدیث پر اعتراض کرنے لگتے ہیں اور حنفی مسائل کے دفاع کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ دونوں کے فتاویٰ جات کا مآخذ بھی یہی فقہ حنفی کی کتابیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی حیرت انگیز طور پر اگر کوئی بریلوی عالم اپنی کتاب میں کسی حنفی مسئلہ کو ذکر کر دے تو دیوبندی اس مسئلہ کو بریلوی مذہب کا مسئلہ قرار دے کر خوب مذاق اڑاتے اور بریلویوں کو شرم دلاتے ہیں۔ حالانکہ وہ خود بھی اسی مسئلے کے قائل و فاعل ہوتے ہیں۔ بالکل یہی رویہ بریلویوں کا بھی ہے اس کی حالیہ مثال وہ واقعہ ہے کہ جب تقی عثمانی نے اپنی کتاب فقہی مقالات میں حنفی مذہب کا مفتی بہ مسئلہ (پیشاب اور خون سے سورہ فاتحہ لکھنا) ذکر کیا تو بریلویوں نے اسے تقی عثمانی کا ذاتی فتوی قراردیتے ہوئے خوب شور مچایا اور دیوبندیوں کو ننگا کرنے کے چکر میں بیچارے خود بھی ننگے ہوگئے 
کیونکہ اس مسئلہ کا تعلق صرف دیوبندیوں سے نہیں بلکہ یہ بریلویوں کا بھی مذہبی مسئلہ ہے۔دونوں حنفی جو ٹھہرے!۔

عام حالات میں دیوبندی اور بریلوی دونوں کبھی بھی یہ اقرار و اعتراف نہیں کرتے کہ فقہ حنفی کے مسائل حیا سوز اور خلاف شرع و خلاف عقل ہیں لیکن آپس کے جھگڑوں میں یہ لوگ مخالف کو الزام دینے کے چکر میں ہر طرح کے اعترافات کر لیتے ہیں۔ 
دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک جب فقہ حنفی کے مسائل اتنے ہی بوگس اور خلاف شرع و عقل ہیں تو یہ منافق لوگ ایسی کنڈم فقہ کو خیر باد کیوں نہیں کہہ دیتے؟! دیوبندیوں اور بریلویوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ اس فضول فقہ پر لعنت بھیج کر قرآن اور حدیث کے مسائل پر عمل کرلیں اس سے انہیں دنیا میں بھی فائدہ ہوگا اور آخرت میں بھی ۔لیکن اگر اسی نجاست بھری فقہ حنفی پر عمل کرتے رہے تو اسی طرح ایک دوسرے کو لعنت و ملامت کرتے رہوگے اور دنیا میں بھی زلیل و خوار رہو گے اور آخرت میں بھی۔ امید ہے اس مخلصانہ مشورہ پر توجہ کرینگے۔  




8 comments:

Yousuf Sani نے لکھا ہے

میرا تبصرہ اب بھی یہی ہے کہ ہمیں اپنی صلاحیتوں کو قرآن و صحیح احادیث پر مبنی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے پر استعمال کرنا چاہئے۔ اسلام صرف اور صرف قرآن اور صحیح احادیث کا نام ہے۔ سب سے پہلے ہمیں یہ بنیادی پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے کا فریضہ انجام دینا چاہئے۔

اس سے ہٹ کر فلاں اور فلاں کے اقوال و افعال باطل کی تشہیر پر اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنا کوئی دانشمندانہ کام نہیں۔ اس طرح تو ہم ان لوگوں تک بھی یہ خرافات پہنچانے کا سبب بن رہے ہیں، جو قبل ازیں اس سے واقف نہ تھے۔ نیٹ اور طبع شدہ کتاب کی نوعیت میں برا فرق ہوتا ہے۔ ایک طبع شدہ کتاب میں اگر تقابل ادیان یا تقابل مسالک تحقیقی انداز میں شائع کی گئی ہو تو یہ ایک اچھی کاوش ہے۔اور اس سے صرف علمی لوگ ہی استفادہ کرتے ہیں۔ عوام الناس اس قسم کی تحقیقی کتب سے رجوع نہیں کرتے، جس میں باطل ادیان و مسالک کی گندگیوں کو حوالہ جات کے طور پر لکھا جاات ہے۔ اور ایسی کتب کے پڑھنے والے اپنے اصل دین کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ ہوتے ہیں۔ نیٹ بالخصوص اوپن فورمز وغیرہ کے عام قارئین خواہ وہ کسی بھی مسلک و دین سے ”وابستہ“ ہوں، عموماً نہ تو قرآن و حدیث کی جملہ بنیادی تعلیمات سے آگاہ ہوتے ہیں، بلکہ اپنے ”مسلک کی جملہ تعلیمات“ سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ ایسے میں انہیں اس قسم کی ”تحقیقی تحریریں“ دین سے دور کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ ”ہر مسلک اور مکتبہ فکر“ کے لوگ دوسرے مکتبہ فکر پر ”سستی تنقیدیں“ کرتے رہتے ہیں۔ اور عام قاری اس قابل نہیں ہوتا کہ ایسی تمام تنقیدوں کا جائزہ لے کر ان میں سے کچھ تنقید کو قبول اور کچھ کو رد کرسکے۔ یہ نہ بھولئے ان مسالک کے اوپن فورمز میں آپ اور آپ کے نکتہ نظر کے حامل مسلک پر بھی تنقید کی جاتی ہے۔

Asghar Ali Sabri نے لکھا ہے

میر ے پیارے بھائی اخنلاف نظر ضرور رکھو بلکہ ہونا بھی جاہیے لیکن کم از کم اپ تو اپنی زبان سے کسی کو پادری نہ کہو ۔شکریہ

Unknown نے لکھا ہے

اچھا جی ننگا کردیا اس بھائی نے فقہ حنفی کو ہہہہہہہہہہہہہہ بھائیوں مزہ تو اس وقت آتا جب یہ بے ہودہ کمنٹر نواب بھوپالی اور محدث روپڑی اور وحید الزماں نیز شیخ امرتسری کی بھی ان عبارتوں اور فتاؤوں کو پیش کرتا نیز فقہ حنفی کے جن مسائل پر رونا رویا ہے اسکے خلاف پر قرآن کی آیت اور حدیث مبارک پڑھتا
بے شرم جاہل انسان مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبد الرزاق جس میں صحابہ کرام کے ہزاروں فتاوے درج ہیں اسکو ہی دیکھ لیتا کہ فقہ حنفی کا فتوی امور بالا مسائل میں اصحاب مصطفی صلعم کے رین مطابق ہے
پھر خود پہ لعنت بھیجتا بے وقوف کہیں کا

Unknown نے لکھا ہے

میں سوچ رہا تھا کہ میں اہل حديث بنو لیکن آپ کا امام ابو حنیفہ سے بعض بہت بڑی روکاوٹ ہیں ۔کچھ شرم کر و

Usama نے لکھا ہے

اللہ ہم سب کو قرآن و حدیث پر چلائے یقینا قرآن وحدیث سے دوری بہت بڑی گمراہی ہے اللہ سب کو صحیح اہلحدیث جو عمل سے اہلحدیث کہلا۸ے بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین

Usama نے لکھا ہے

کسی پر اٹیک نہیں کرنا چاہیے

Muhammad Tariq Salaf نے لکھا ہے

الله أكبر لاحول ولاقوة الابالله

محمد حمید خان نے لکھا ہے


🔮 ﻏﯿﺮ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﺑﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪﯼ ﻧﺴﺨﮧ

ﻗﻠﻌﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﺳﻨﮕﮫ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﻼﺏ ﻧﺎﻣﯽ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﺗﮭﺎ ، ﻭﮦ ﻣﻮﺿﻊ ﻣﺮﺍﻟﯽ ﻭﺍﻟﮧ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻮﮦ ﺩﮬﻮﺑﻦ ﺗﮭﯽ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﺍﻡ ﺍﻟﻔﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺟﺐ ﻣﺮﺍﻟﯽ ﻭﺍﻟﮧ ﮐﮯ ﺑﺎﺷﻨﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮔﻼﺏ ﮐﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﻭﺍﭘﺲ ’’ ﻗﻠﻌﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﺳﻨﮕﮫ ‘‘ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺏ ﭼﻮﮐﯿﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﻣﻘﺮﺭ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻣﻮﻟﻮﯼ ‏(ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﻏﯿﺮ ﻣﻘﻠﺪ‏) ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﭼﮑﺎ ﮨﻮﮞ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﻻ ﺧﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﻠﻮﻟﮧ ﻓﺮ ﻣﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮔﻼﺏ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺩﻡ ﺑﮉﮬﺎ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﮐﻮ ﺳﻔﺎﺭﺷﺎً ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﮐﮯ ﻣﻮﺍﻓﻖ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺩﺍﺑﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺑﻘﮧ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ۔ ﺑﮉﮬﺎﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ، ﻋﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﮦ ﮨﮯ، ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﮑﺎﺡ ﮨﻮﺟﺎﻭﮮ ﺗﻮ ﮐﺎﺭِ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ۔ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺑﮉﮬﺎ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮﮐﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻗﺴﻢ ﻟﮯ ﻟﻮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺷﺨﺺ ﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﻧﮑﺎﺡ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺲ ﻧﮧ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔ ﮔﻼﺏ ﻧﮯ ﻗﺴﻢ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﻗﺒﻞ ﺍﺯ ﻧﮑﺎﺡ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﮐﻮ ﻣﺲ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﻌﺪ ﺍﺯ ﻧﻤﺎﺯ ﻋﺸﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮ ﮐﺮ ’’ ﻣﺮﺍﻟﯽ ﻭﺍﻻ ‘‘ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺩﻓﻌﮧ ﯾﮧ ﻟﻔﻆ ﮐﮩﻨﺎ۔ ﺍٓﺟﺎ ،ﺍٓﺟﺎ، ﺍٓﺟﺎ۔ ﺗﯿﻦ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﻧﺎ ،ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﻋﺼﺮ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺬﮐﻮﺭﮦ ﮔﻼﺏ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺍٓﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﭘﺮﺳﻮﮞ ﻋﺸﺎ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﮮ ﺗﻦ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ ﺍٓﮒ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍٓﺭﺍﻡ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﮔﻼﺏ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺘﻮﺍﺗﺮ ﺗﯿﻦ ﺭﻭﺯ ﺍﻧﺪﺭ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔ﺗﯿﺴﺮﮮ ﺭﻭﺯ ﻗﯿﻠﻮﻟﮧ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺑﮉﮬﺎ ﮐﺸﻤﯿﺮﯼ ﮐﻮ ﺑﻼ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺎﻭٔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﻮﺫﯼ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻻﻭٔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺯﻧﺎ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﮉﮬﺎ ﻓﻮﺭﺍ ًﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻼﺏ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﻻﯾﺎ۔ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺟﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﻮﺟﺎ۔ ﻭﮦ ﻟﻮﭦ ﮐﺮﮔﮭﺮﮔﯿﺎ۔ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺟﯿﺴﮯ ﺍٓﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﯾﺴﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔ ‘‘ ‏

( ﺳﻮﺍﻧﺢ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﻏﻼﻡ ﺭﺳﻮﻝ ﺹ ۹۹ ۔ ۱۰۰ ‏)

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔